وفاقی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کیوں؟

وزیراعظم شہباز شریف کو منتخب ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا ہے لیکن تاحا ل وہ اپنی کا بینہ تشکیل نہیں دے سکے، چونکہ نئی حکومت متعدد اتحادی جماعتوں پر مشتمل ہے اور کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے تمام اتحادی جماعتوں کے تحفظات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا لیکن اس سے کابینہ کی تشکیل میں ہونے والی تاخیر ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے جسے پہلے ہی مشکل معاشی حالات سمیت کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، چنانچہ کابینہ کی تشکیل کے عمل میں جتنی زیادہ تاخیر ہو گی اتنے ہی اس کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے، خاص طور پر ملک کی معاشی صورت حال فوری اقداما ت کی متقاضی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے ابتر حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اتحادی جماعتوں کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے پہلے ہی نئی کابینہ کی تشکیل سے متعلق فارمولہ طے کر لیا جاتا تا کہ اس عمل میں تاخیر نہ ہوتی لیکن بدقسمتی سے اس وقت تمام تر توجہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو ہٹانے پر دی گئی اور نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ اب کابینہ کی تشکیل کا عمل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے ، اگرچہ ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ وفاقی کابینہ کے لئے تیس نام تجویر کئے گئے ہیں جس میں مسلم لیگ ن کے تیرہ، پیپلزپارٹی کے دس اور جے یو آئی کے تین وزراء شامل ہوں گے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
ملکی مسائل اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمران اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو کابینہ کی تشکیل سے متعلق بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ موجودہ ہوشربا مہنگائی میں ریلیف کے لئے عوام نے نئی حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، عوام کو یہ ریلیف اسی صورت ملے گا جب کابینہ کی تشکیل مکمل ہوگی اور وزراء کو قلمدان سونپ دیئے جائیں گے، وزراء کو قلمدان ملنے کے بعد ہی وہ کام کر سکیں گے، امید کی جانی چاہئے کہ نو منتخب وزیراعظم اور اتحادی جماعتیں کابینہ کی تشکیل کو خوش اسلوبی سے مکمل کر لیں گے۔
قلت دودھ کا تدارک کیا جائے
پشاور میں یومیہ پانچ لاکھ لیٹر دودھ کی ضرورت کے مقابلے میں صرف چالیس ہزار لیٹر دودھ ڈیری فارمز سے حاصل ہو رہا ہے، یوں ساڑھے چار لاکھ لیٹر دودھ کی قلت کا سامنا ہے، جب اتنی بڑی مقدار میں دودھ کی قلت ہو گی تو ایسے میں ملاوٹ شدہ مضر صحت دودھ کی فروخت کے رحجان کو فروغ ملنا فطری امر ہے، اس مکروہ دھندے میں ملوث عناصر اس صورت حال کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں، موجودہ قلت کو پورا کرنے کے لئے ساڑھے چار لاکھ لیٹر دودھ مختلف کیمیکلز سے تیار کیا جا رہا ہے، جب خالص دودھ میسر نہیں ہو گا تو شہری بھی چار و ناچار مضر صحت دودھ ہی خریدنے پر مجبور ہوں گے جس سے مختلف بیماریاں پھیلیں گی۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں مضر صحت دودھ کی تیاری و ترسیل کی روک تھام کے لئے انتظامیہ کی طرف سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں، انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ نہ صرف مضر صحت دودھ کی پیداوار اور ترسیل کی روک تھام کے لئے اقدامات کرے بلکہ ڈیری فارمز کو بھی فروغ دے ، اس کے علاوہ لوگوں کی مال مویشی پالنے کے حوالے سے بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، اس سلسلے میں آسان قرضوں کی فراہمی کی سکیموں کے ساتھ ساتھ کھل، چوکر، ونڈے سمیت مال مویشیوں سے متعلقہ مصنوعات پر سبسڈی بھی دی جانی چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے گھر وں میں مال مویشی پال سکیں، اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ شہریوں کو خالص دودھ میسر آگے گا دوسرا ما ل مویشی لوگوں کے لئے روزگار کا ذریعہ بھی ہوں گے۔
رمضان میں فلسطینیوں کیلئے مسجد اقصیٰ کے دروازے بند
رمضان المبارک کا مہینہ اُمت مسلمہ کے لیے انتہائی مقدس مہینہ ہے، اس ماہ مبارک میں دنیا بھر کے مسلمان دنیاوی مصروفیات ترک کر کے زیادہ سے زیادہ عبادت کرتے ہیں۔ تلاوت قرآن ، تراویح اور قیام اللیل کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس ماہ مقدس میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹے اور اپنے گزشتہ ہونے والے گناہوں کی تلافی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک میں ایک ماحول تشکیل پاتا ہے مگر اہل فلسطین کیلئے مسجد اقصیٰ کے دروازے بند ہیں انہیں مسجد اقصیٰ جانے اور وہاںپر عبادات کی اجازت نہیں ہے، اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینیوں پر مظالم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ جب ہر مذہب کے پیرو کار کے جذبات کا احترام کیا جاتا ہے تو پھر فلسطین کے مسلمانوں کو عبادات سے کیوں روکا جاتا ہے، دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ فلسطین کے مسلمانوں کی یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ بیت المقدس میں عبادت میں اپنا زیادہ وقت گزاریں اگرچہ ایک عرصہ سے فلسطینی مسلمان یہودی تسلط کا شکار ہیں، تاہم جمعہ کے روز انتہا پسند یہودی گروپوں کی جانب سے نہتے فلسطینی عبادت گزاروں پر حملہ کیا گیا جس میں کئی متعدد فلسطینی شہید اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے، انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی مذہبی ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے ۔ پرتشدد واقعات کے بعد حالات کسی قدر معمول پر آنا شروع ہو گئے۔ تاہم بین الاقوامی برادری کو اس سارے پس منظر کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ وہ مسلمانوں کے ماہ مقدس کے دوران اس طرح کی سرگرمیوں سے باز رہے۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں