نیب ترامیم

نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ نیب کا 10 ارب ڈالر ریکوری کا کریڈٹ لینا سرپرائزنگ تھا، اداروں کی جانب سے ایسی غلط دستاویزات جمع نہیں ہونی چاہیے، چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل خود ریکوری اور بجٹ کی اصل رپورٹ پیش کریں۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ نیب کا گزشتہ 10 سال کا سالانہ بجٹ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ نیب کی بجٹ سٹیٹمنٹ کہاں ہے؟
سماعت کے آغاز پر بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کیا گیا ۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کرا دیں، کیا آپ فیصلہ سپورٹ کر رہے ہیں؟
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہے ہیں؟، وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرا مقف وہی ہے لیکن دلائل میرے اپنے ہیں، میں نے تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے، میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے دلائل تحریر کیے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک کے بعد عدالتی معاون وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے اور دلائل کا آغاز کردیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14 ،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سوال کیا کہ نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب قانون 1999 میں آیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ 1999 میں کس کی حکومت تھی؟ نام لے کر بتائیں۔
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، پرویز مشرف سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اسی طرح کا احتساب ایکٹ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے موکل کی حکومت آئی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے، پرویز مشرف نے تو کہا تھا نیب کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنا ہے، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ اور جن اداروں، شخصیات پر نیب قانون لاگو نہیں ہوتا اس متعلق ترمیم نہیں کی گئی، پارلیمنٹ موجود تھی قانون سازی کر سکتی تھی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 1999 سے 2018 تک تمام بڑی سیاسی جماعتیں حکومت میں رہیں، کسی سیاسی جماعت نے نیب قوانین میں ایسی ترمیم نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیگر جماعتیں فریق نہیں، ترامیم پی ٹی آئی نے چیلنج کیں ان سے پوچھیں گے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کے سابق وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ دبئی لیکس اور جعلی اکائونٹس ہمارے سامنے ہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا ہم زخم ٹھیک کریں مگر وجہ نہ دیکھیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو دلائل دینا چاہتے ہیں وہ دیں باقی نوٹ کروا دیں ہم پڑھ لیں گے، آپ بتائیں آپ کو کتنا وقت درکار ہو گا؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں دلائل میں 3 گھنٹے سے زیادہ وقت لوں گا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چیلنج کی گئیں نیب ترامیم مخصوص تناظر میں کی گئیں، کرپشن عوام کے بنیادی حقوق متاثر کرتی ہے، عوام کا پیسہ لوٹا جانا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، نیب قوانین کا اطلاق پبلک آفس ہولڈر پر ہوتا ہے، پبلک آفس ہولڈرز صرف سیاستدان نہیں ہوتے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ نیب کی کارروائی کے لیے عوام کا اختیار کتنا ہے؟ میری سمجھ کے مطابق تو کوئی بھی شہری شکایت درج کر سکتا ہے، یہ اختیار نیب کا ہے پتہ کرے کرپشن ہوئی یا نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا، ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں، میں بنچ پر اور انٹرا کورٹ اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا، سپریم کورٹ میں مرکزی درخواست قابل سماعت تھی۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں؟ کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ میں دلائل دوں گا کہ اقلیتی رائے درست نہ تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ 90 روز کے نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ 50 کرڑو سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں؟، نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ مشرف سے پہلے بھی احتساب بیورو موجود تھا، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا؟ غیر منتخب پبلک آفس ہولڈر پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ منتخب نمائندگان کے تعینات کردہ افراد بھی پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہیں، فیصلے منتخب نمائندے کرتے ہیں عمل درآمد بیوروکریسی، اتفاق نہیں کرتا کہ سیاستدان کرپشن نہیں کرتے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سامنے آنے والی جائیدادیں ثبوت ہیں کہ کرپشن ہو رہی ہے، نیب ترامیم اس لیے کی گئیں کہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے، بطور سینئر وکیل آپ کی کیا رائے ہے، جسٹس منصور علی شاہ کی رائے درست تھی یا دو رکنی بنچ کا فیصلہ؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میری رائے میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ درست نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف کیس کو پہلے لگایا جانا چاہیے تھا، باہر جاکر کیمرے پر گالیاں دیتے ہیں، گالیاں دینا تو آسان کام ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر جلد سماعت کی درخواست دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون آیا لیکن وہ پھر بھی چیلنج ہوا، حکم امتناع دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کی قانون سازی کو معطل نہیں کیا جا سکتا، عدالت معطل نہیں ختم کرسکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ معزز چیف جسٹس کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پارلیمان کا وقار اہم ہے، قانون سازی کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، اگر میں نے غلطی کی تو مجھ پر انگلی اٹھائیں، دنیا کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر اسی وجہ سے گراوٹ کا شکار ہے، اس طرح کے حکم امتناع سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، میری رائے ہے کہ قانون معطل نہیں ہوسکتا۔
بعد ازاں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کسی نے گھر بنایا اس کے پاس رسیدیں نہیں ہوں گی، کیا رسیدیں مانگنا کسی کو بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو آپ کے مرکزی کیس میں کلائنٹ تھے اگر انہیں آج کہہ دیں کہ تمام اثاثوں کا جواب دیں تو آپ کے لیے مشکل ہو جائے گا، خواجہ صاحب کون کون سی نیب ترامیم کو چیلنج کیا تھا؟ وہ لکھوا دیں، آپ نے سیکشن 19 اے فائیو میں ترمیم کو چیلنج کیا تھا، آپ نے سیکشن 14 کے حذف کرنے کو چیلنج کیا تھا اور کیا تھا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 2 میں ترامیم کا اطلاق ماضی سے کرنے کو چیلنج کیا تھا، سیکشن 4، 16 ،21 جی اور سیکشن 25 ڈی میں ترمیم کو چیلنج کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کون کون سی ترامیم کو کالعدم کیا گیا، بتا دیں، خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں ترامیم کی تفصیلات لکھوا دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکشن 19 اے فائیو میں ترمیم کو کس بنیادی حق کے متاثر ہونے پر کالعدم کیا گیا؟ نیب کے قیام کا مقصد ہی سیاسی انجینئرنگ تھا، خواجہ حارث! آپ اپنے موکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں، نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو نقصان آپ کے موکل کا ہوگا، عمران خان اس وقت زیر عتاب ہیں، وہ نیب سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مشکلات کے باوجود عمران خان آج بھی ترامیم کا کیس لڑ رہے ہیں، وہ جانتے تھے ترامیم کالعدم ہونے سے ان کے لیے مشکلات ہوں گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان کو اپنے اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں تو مشکل پڑ جائے گی، کیا یہ بلیک میلنگ نہیں کہ کسی کو بھی اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھ سے کوئی کہے اپنے گھر کی رسیدیں دو تو میں نہیں دے سکوں گا، جائز اثاثوں کا حساب دینا بھی ناممکن ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نے کہا کہ کیا اب بانی پی ٹی آئی کو کہہ دیا جائے پرانے قانون کے تحت اپنے اثاثے ثابت کریں؟ آپ عوامی نمائندوں کے لیے مشکلات بنا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو ایمنسٹی کیوں دی؟ برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے بتائیں وہاں کیوں ایمنسٹی نہیں دی جاتی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ احتساب کا اتنا ہی سخت موقف تھا تو ٹیکس ایمنسٹی کیوں دیتے رہے؟ برطانیہ میں برسوں سے جمہوریت ہے وہاں ٹیکس ایمنسٹی کیوں نہیں دی جاتی؟، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ معاشی فیصلے ہوتے ہیں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے اثاثوں کے الگ گوشوارے بنا رکھے ہیں، انکم ٹیکس کی تفصیل کیوں نہیں مانگی جاتی اس طرف کیوں نہیں جاتے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو آئین سے بتانا ہوگا، ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ ترامیم سے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے گولڈ رولیکس پہنی ہو، تفیشی پوچھے کہاں سے لی تو سارا بوجھ آپ پر آجائے گا، تفتیشی کا کام تو آسان ہو گیا، ایمینسٹی سکیم دینا کیا نیب قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کارروائی ہر معاملے پر نیب ہی کرے؟ نیب پر اتنا اعتبار کیوں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اثاثوں کی سیکشن کو صرف اسٹرکچر کیا، چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی، آپ چاہتے ہیں اثاثوں کی سیکشن سے کرپشن کی شرط نکال دیں؟ صرف آمدن اور اثاثوں میں فرق ہونا کافی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کسی وزیر اعظم سے نہیں پوچھے گا یہ گھر کہاں سے لیا، وہ کہے بھائی نے تحفہ دیا تو کیا ہو گا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسے میں اس کے بھائی سے پوچھا جائے گا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس طرح تو یہ گھومتا رہے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی، لسٹ میں بتایا گیا تھا 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترامیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 2019 کی ترامیم پر بعد میں بات کروں گا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے مزید دریافت کیا کہ جو مقدمات نیب سے نکلیں گے وہ کہاں جائیں گے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ہمیں ایک فہرست دے کہ کون سے مقدمات کس کس عدالت کو منتقل ہوں گے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کون کون سے جرائم ہیں جن کو ترامیم میں ختم ہی کر دیا گیا ہے؟

مزید پڑھیں:  مردان میں مخالفین کی فائرنگ سے ایک شخص قتل