گورکھ ڈگی

پشاور میں واقع 200سال پرانا ”گورکھ ڈگی ” سوئمنگ پول

ویب ڈیسک: صوبائی دارالحکومت پشاور کے ورسک روڈ پر واقع خوشحال باغ کا200سال پرانا ‘گورکھ ڈگی ‘سوئمنگ پول ایک یادگاری اور تاریخی چشمہ ہے ۔
خوشحال باغ کے سوئمنگ پول کو مقامی افراد گورکھ ڈگی کہتے ہیں ،دفاتر کے ساتھ بڑے بڑے درخت، خوبصورت پارک اور سبز گھاس کے بیچ و بیچ واقع اس تالاب کو باقاعدہ سوئمنگ پول بنا دیا گیا ہے۔
سوئمنگ پول میں پشاور کے مختلف علاقوں سے بچے بڑے پشاور کی تپتی دھوپ سے کچھ لمحات کی نجات کے لیے رخ کرتے ہیں۔
تالاب کے سابق 80سالہ ملازم کے مطابق یہاں پر بہت پہلے مندر ہوا کرتا تھا۔
بزرگ ملازم کے مطابق مندر میں گورکھ نات نامی ہندو پیشوا صبح سویرے آکر نہاتے تھے اور اپنی عبادات کرتے تھے اور اس کے بعد یہاں اس پانی سے بچوں کو نہلانے کا کام شروع ہو گیا۔
انہوں نے مزید بتایا سوئمنگ پول ماضی میں مندر ہوا کرتا تھا۔ سکھ، ہندو اور انگریز یہاں آتے تھے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ وہ فجر کے لیے ابھی اٹھتے بھی نہیں تھے کہ یہ لوگ اندرون شہر سے یہاں پہنچ جاتے۔

مزید پڑھیں:  پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج اساتذہ کا عالمی دن منایا جارہاہے

ان کے مطابق محکمہ ماہی گیری کو جب یہ دیا گیا تو میرے والد یہاں 30سال ملازم رہے، میں یہاں 25 سال کام کرنے کے بعد ریٹائر ہوا ہوں۔
ایک کنال مجموعی رقبے پر یہ چشمہ تین مرلوں میں واقع ہے،پانی اتنا زیادہ ہے کہ انگریز اس پانی پر پن چکیاں چلاتے تھے۔
سوئمنگ پول کے پانی کے حوالے سے بتایا گیا کہ سوئمگ پول صبح چھ سے شام سات بجے تک کھلا رہتا ہے اور اس کے بعد چشمے سے پائپ کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے اور یہ دوبارہ پانچ گھنٹوں میں بھر جاتا ہے۔
مقامی تاریخ دان اور پشاور کی تاریخ پر پشاور تاریخ کے دریچوں میں اور پشاور کے فنکار نامی کتابوں کے مصنف نے اس حوالے سے بتایا کہ جس جگہ یہ تالاب واقع ہے اس مقام کو گورکھ ڈیگی کہا جاتا تھا اور یہ نام ماضی میں ہندو پنڈت گورکھ نات کے اس جگہ پر جانے سے پڑ گیا تھا۔
گورکھ نات ہندو حکیم بھی تھے اور اس زمانے میں مختلف بیماریوں کے علاج کی دوا بناتے تھے اور اسی تالاب میں جا کر نہاتے بھی تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تالاب میں گورکھ نات جاتے تھے تو وہاں کے لوگوں میں مشہور ہو گیا اور پھر علاج کی غرض سے اسی تالاب میں لوگ مختلف بیماریوں کے علاج کی غرض سے نہاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ تالاب تقریباً 200سال پرانا ہے جب پشاور پر سکھوں کی حکمرانی تھی اور اسی گورکھ نات کے نام سے پشاور کی تاریخی گور کھٹڑی تحصیل میں مندر بھی موجود ہے۔
تحصیل گور گھٹڑی میں کنویں کے اثار بھی موجود ہیں اور یہ بھی مشہور ہے کہ اس زمانے میں ہندئوں کا یہ عقیدہ تھا کہ گورکھ نات اس کنویں میں ڈبکی لگا کر ورسک روڈ کے گورکھ ڈگی کے تالاب میں نکل آتے تھے۔

مزید پڑھیں:  جڑواں شہر دوسرے روز بھی سیل، اسلام آباد میں فوج کا گشت