افغانستان سے ایک بار پھر مطالبہ

وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ افغانستان دہشتگردی کیخلاف موثر اقدامات کرے تاکہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہ ہو۔پاکستان نے دوحہ مذاکرات کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن افغانستان کی عبوری حکومت اس کی توقعات پر بھی پورا نہیں اتر رہی امر واقع یہ ہے کہ پاکستان کے اصرار کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی البتہ اس مسلح تنظیم کی قیادت اور اس کے جنگجووں کو اپنی سرزمین پر تحفظ ضرور فراہم کیا ہے۔افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کیخلاف بطور پریشر ٹیکٹکس استعمال کر رہے ہیں۔افغان طالبان کو دوحہ معاہدے کے تحت حکومت دی گئی ہے۔ اس معاہدے میں دیگر کئی شرائط کے علاوہ طالبان نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ان کے دور اقتدار میں افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہوگی اور نہ ہی دہشتگرد گروہوں کو افغانستان میں رہنے دیا جائیگا مگر حالات کچھ اور ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔ یہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔افغانستان کئی دہائیوں سے بدامنی اور خانہ جنگی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس کے براہ راست اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور ابھی تک مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت رہی ہو، پاکستان کے لیے مسائل ہی کھڑے ہوتے رہے ہیں، افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان میں اب تک موجود ہے۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات جتنے خوشگوار ہونے چاہیے تھے، اتنے نہیں ہوسکے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے زعما کواس کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا۔ہمارے پالیسی سازوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ جن افغان طالبان کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا، جب انھیں اقتدار ملا تو انھوں نے پاکستان کے مفادات کے برعکس کام کیا۔ افغانستان میں پچھتر برس سال سے پاکستان دشمنی پر مبنی نصاب تعلیم پڑھایا جا رہا ہے۔وہاں کی حکمران اشرافیہ اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے لیے اس نفرت کو بڑھاتی رہی ہے اس کام میں دائیں اور بائیں بازو کی کوئی تفریق نہیں ہے۔افغانستان کے باشندوں کے ذہنوں کواس قدر آلودہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان دشمنی کو افغان حب الوطنی کی علامت سمجھتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ افغانستان کے لاکھوں باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں یہاں کاروبار کر رہے ہیں پاکستان کی ریاست کے مہیا کردہ وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں یہاں کے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں پرامن زندگی گزار رہے ہیں، عزت سے کاروبار کر رہے ہیں لیکن سوچ کے اعتبار سے منفی اور پاکستان مخالف رویے اختیار کرتے ہیں۔دیکھا جائے تو افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک سکے کے دو رخ ہیں اور ان کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں موجود ہیں اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہیں۔ افغان عبوری حکومت جو موقف پیش کرتی ہے، وہ بھی اس کی غیرسنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔ افغان حکومت کہتی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہو رہی افغانستان کی عبوری حکومت ہمسایہ ممالک کے ساتھ جس پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہے،یہ پالیسی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔دہشتگرد تنظمیںکبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں کیونکہ انھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسے گروہ امن و امان کے مسائل ضرور پیدا کریں گے، جیسا کہ وہ کر رہے ہیں، مگر ریاستی ادارے اب پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔پاکستان اب بھی چاہتا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کامیاب ہوجائے اور وہ اس سے تعاون کررہا ہے۔پاکستان آج بھی افغانستان کی بات سن رہا ہے اور افغان عبوری حکومت کو موقع بھی دے رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات کودرست کریں۔ دراصل افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل طالبان میں بھی دھڑے بندی ہے۔ نئی حکومت کے پاس تربیت یافتہ فوج نہیں ہے اور نہ ہی ریاستی مشینری تربیت یافتہ ہے۔ملک کی سماجی حالت بھی سب کے سامنے ہے، پورا ملک مختلف لسانی اور نسلی گروہوں میں تقسیم ہے۔ معتدل اور متوازن سوچ کے حامل طالبان کی حکومت پر گرفت کمزور ہے ان مشکلات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ملک میں اصلاحات لانے کے قابل نہیں ہے ۔ بظاہر افغانستان ایک خودمختار ریاست ہے لیکن عملا یہ ملک کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔یہ ساری صورتحال اور حالات خطے اور خاص طور پر ہمسایہ ملک پاکستان کے لئے مشکلات کا باعث ہے افغانستان سے دراندازی کے باعث پاکستان کو گرم تعاقب تک کی دھمکی دینے کی ضرورت پیش آئی اور کئی بار اس پر غیر اعلانیہ عملدرآمد بھی کیا گیا لیکن اصل ذمہ داری بہرحال افغان حکومت ہی کو اٹھانا ہے جو جب تک اپنی ذمہ داریوں اور وعدوں کی تکمیل پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دے گی اس سنگین مسئلے کا سامنا رہے گا جس کے باعث خطے کے ممالک بالعموم مشکلات کا شکار تو رہیں گے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بھی بہتری نہیں آئے گی۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل ایران کشیدگی