مفاہمت کا سنہرا موقع

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے حکومت کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملکی مسئلہ ہے، ملک کی خاطر وہ اس میں شرکت کریں گے۔ یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف ” عزم استحکام” کے نام سے آپریشن کی حزب اختلاف سمیت کئی سیاسی جماعتوں اور کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ اس حوالے سے عمران خان کا بیان آیا ہے، اب اس پر قائم رہیںخیال رہے کہ مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے شدت پسندی کے خلاف فوجی آپریشن عزم استحکام پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر اس کا باضابطہ اعلان کریں گے۔ تاہم وزیراعظم کی واپسی کے بعد ابھی تک سرکاری میڈیا یا حکومت کے کسی نمائندے کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔امر واقع یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں عسکریت پسند صوبے کے مختلف اضلاع میں پھیلتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے گزشتہ ماہ صوبے کے کے9اضلاع میں دہشت گردی کے حملے ہوئے۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز(پی آئی پی ایس)کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جون میں پاکستان میں27دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے، ان حملوں میں سے31خیبرپختونخوا اور6 بلوچستان میں رپورٹ ہوئے، جبکہ پچھلے ماہ ان حملوں کی تعداد36تھی۔خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے عسکریت پسند گروپوں کا سب سے بڑا ہدف رہے ہیں تعلیمی ادارے، خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول، پولیو کارکنان، قبائلی عمائدین اور سیاسی رہنما ان حملوں کی زد میں آئے ہیں۔پی آئی پی ایس نے جون کے لیے اپنی ماہانہ سیکیورٹی جائزے رپورٹ میں بتایا کہ جون میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر مقامی طالبان گروپوں نے خیبرپختونخوا میں21دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی، اور یہ تعداد پچھلے مہینے کے مقابلے میں دو زیادہ ہیں۔جون2024کے دوران، بلوچستان میں دہشت گردی کے کل 6واقعات ہوئے۔ان حالات میں اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف ایک مربوط وتکمیلی مہم کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں تاہم ماضی کے بعض تلخ تجربات اور رویوں کے باعث اس کی عوامی نمائندوں اور متاثرہ اضلاع کے عوام کی جانب سے مخالفت کی گئی لیکن بہرحال ان کی مخالفت تطہیری مہم بجائے اس طریقہ کار پر زیادہ تھی جس سے خدشات تھے جن کو دور کرنے کے لئے کل جماعتی کانفرنس کاانعقاد کرکے اتفاق رائے حاصل کرنے اور عوامی تحفظات دور کرنے کا اعلان مثبت امر ہے جس کے لئے راہ ہموار کرنے کی ذمہ داری حکومت کو احسن طریقے سے پوری کرنی چاہئے لیکن بجائے اس کے کہ پی ٹی آئی کے اسیر رہنما کی جانب سے ملکی مفاد کی خاطر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی جماعت کی اس میں شمولیت کے عندیہ کا خیر مقدم کیا جاتا وفاقی وزیر اطلاعات کا منفی بیان حیران کن ہے جس سے یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے اسیر قائد کے مثبت طرز عمل کی نہ صرف قدر نہیں بلکہ وہ طنز بھرے بیان سے تحریک انصاف کے وفد کی شمولیت کو بھی خطرے میں ڈالنے کے جانے انجانے کوشاں ہیں ماضی میں یوٹرن کی اصلاح وضع کرنے کا ایک پس منظر ضرور ہے لیکن وسیع تر قومی مفاد میں اعلان پر اطمینان کا اظہار کرنا اور اس کا خوش دلی سے خیر مقدم کرنا ہی ماحول کو ساز گار بنانے کا تقاضا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کسی حکومتی مشاورتی عمل میں شرکت کا اعلان ملکی سیاسی صورتحال میں اہمیت کا حامل ہے جسے ممکنہ پیشر فت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اس سے کسی کو انکار نہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف میں اختلافات کی جو خلیج حائل ہے ملکی صورتحال پر ہر لحاظ سے اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں سیاسی بے یقینی اور جمہوری نظام پر پڑنے والی پرچھائیوں سے مجموعی ملکی صورتحال ہی متاثر نہیں ہو رہی ہے بلکہ بین الاقوامی دنیا سے معاملت میں بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے چین کی طرف سے تو اسے باقاعدہ الفاظ کی شکل دی گئی اور گھر کے معاملات کی درستگی کا مشورہ بھی دیا گیا بہرحال بانی پی ٹی آئی کی جانب سے حسب روایت سخت موقف اختیار کرنے کی بجائے اے پی سی میں شمولیت پر آمادگی کا اظہار ایک اچھا اور مثبت طرز عمل کا مظاہرہ ہے ضروری ہے کہ حکومت بھی اس حوالے سے اپنے حصے کا کردار دوقدم آگے بڑھ کر ادا کرے اور مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس کا جلد اعلان کرکے اس کا انعقاد یقینی بنائے حکومت کی طرف سے تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں اور نمائندہ افراد کو کانفرنس میں شرکت کی باقاعدہ دعوت دینی چاہئے ان کو نہ صرف اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے بلکہ اس موقع کو وسیع البنیاد قومی مفاہمت کی ابتداء کا ذریعہ بنانے کی بھی سعی ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین