مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے

اتفاق سے گزشتہ کالم ہی میں منفیت پر بات ہوئی تھی ڈونٹ اور لعنت کے عمل نے اسے ثابت بھی کر دیا کہ کس طرح ایک معمولی سی حرکت کو کس درجے میں لے جایا گیا لطف کی بات تو یہ ہے کہ سراہنے والوں میں پیش پیش رہنے والوں سے تین حرف بھیجنے والے کا کوئی جماعتی تعلق نہ تھا اس طرح تین حرف بھیجنا ایسا کرنے والے کے لئے کوئی بڑی بات اس لئے شاید نہ تھی کہ ان کے تحریکی وغیر تحریکی ہم خیال ایک خاص الزام لگنے پر بندوق خالی کرنے کو عین سعادت سمجھتے ہیں لیکن یہاں صرف ایک تاثر تھا اور اس کی طرف جب توجہ دلائی گئی تو اس کی تصحیح و ازالہ بھی کرکے مطمئن بھی کر دیا گیا بہرحال معاملہ کیا تھا اور یہ حرکت کیوں کی گئی ہم اس سے بننے والی فضا کو حسب سابق منفیت ہی کا نام دیں گے دل کی بھڑاس اس طرح نکلے تو اس طرح ہی سہی لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے کاموں اور باتوں سے کچھ ہوتا نہیں اصل بات کوئی نہیں کرتا ہم کبھی ایک کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور کبھی دوسرے کے پیچھے اس پر غور کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے گزشتہ و موجودہ ہر دو ادوار میں وہ پس پردہ حالات کیا تھے کہ اچھی خاصی کمائی ہوئی عزت جاتے جاتے لٹ جاتی ہے کوئی بھی اس طرح سے عزت لٹا کے نہیں جانا چاہتا لیکن کوئی تو مجبوری ہو گی آخر یکے بعد دیگرے جو اس طرح ہوتا ہے ۔یہ تو برسبیل تذکرہ آگیا ورنہ آج کا موضوع تحریک انصاف کے یکے بعد دیگرے جلسے احتجاج اور کارکنوں کو سڑکوں پر گھما کر واپس لانے کا ہے اس مرتبہ اخباری اطاعات کے مطابق خیبر پختونخواکے پرجوش کارکنوں نے پنڈی جاتے ہوئے برہان سے واپسی پر ناپسندیدگی کا واضح اظہار کیا ہے لاہور بھی تاخیرسے او رنامکمل طور پرپہنچنے کا بھی ان کو ملال ہوا ہو گا مگر دوسری مرتبہ کے ادھورے سفر پر دل کی بات زبان پر لائے بغیر رہا نہیں گیا ہو گا اس منزل بے مراد قسم کے احتجاج اور سفر کے حوالے سے ایک شعر ذہن میں آیا اور تصحیح کے لئے شعر کی تلاش کی تو شعر کا پہلا مصرع دو قسم کا ملا دونوں ہی بامعنی تھے شعر
مسافر شب کو اٹھتا ہے جو جانا دور ہوتا ہے یا پھر
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے
مسافر کو واحد لیں تو حقیقی وا بدی سفر ذہن میں آتا ہے یقینا یہ سفر جدا جدا ہر کسی کا اپنا سفر اپنی زندگی اور اعمال کا سفر ہوتا ہے اور منزل کے حصول کا تقاضا شب بیداری اور شب کو اٹھ کر یعنی تہجد کی ادائیگی اچھی تیاری اور منزل کی گویا ضمانت ہوتی ہے اگر اس سے دنیاوی سفر مراد لیں تو بھی بروقت روانگی اور پہلے سے تیاری کا مفہوم ذہن میں آتا ہے مگر خیبر پختونخوا سے جو قافلے لاہور کے جلسے کے لئے نکلے یا پھر راولپنڈی احتجاج کے لئے شب کو اٹھنا تو درکنار نصف النہار کوبھی روانہ نہ ہوئے ظاہر ہے اس کی منزل پھر آنی ہی نہیں تھی سیاسی جلسوں میں اس کی پہلی مثال شہباز شریف نے قائم کی تھی کہ ان کا جلوس لاہور ایئر پورٹ پہنچنے میں ناکام رہا جسے بھائی کی بھائی سے سیاست قرار گیا اور طرح طرح کی باتیں ہوئیں تو اب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں سرکاری مشینری و وسائل لئے اہل قافلہ کے سالار کی دوسری مرتبہ کی حرکت کو بھی کوئی نام دیا جائے تو اس کی پوری گنجائش ہونی چاہئے ، ابتلاء کے اس سخت وقت میں تحریک انصاف کی مشکل ہی یہ ہے کہ پارٹی نے خیبر پختونخوا میں جن جن کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ دیا آج وہ مخالفین کی صف میں شمار ہوتے ہیں پنجاب جیسے بڑے صوبے میں قابلیت اور خدمات سے ہٹ کر جس شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا آج اس کا نام بھی کہیں نہیں آتا وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ اور ان کے ار دگرد کے افراد بھی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں پارٹی کی قیادت جسے سونپی گئی ہے اس کی احتجاج اور جدوجہد کی صلاحیت ہے ہی نہیں اب تو بعض اطلاعات کے مطابق پارٹی قیادت اسد قیصرکو سونپی جارہی ہے جس کی دیرینہ رفاقت اپنی جگہ مگر اس کے اعصاب کی مضبوطی کی صورتحال ایک صحافی کے سوال کے جواب میں گندی گالی دینے کی ہے ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا آخر کب تک خیبر پختونخوا سے یلغار کی قیادت کرتے رہیں گے پنجاب میں چند خواتین نے کمال کی مزاحمت ضرور دکھائی مگر باقی پنجاب کے رہنمائوں کو عمران خان کی موجودگی میں سانپ سونگھ جاتا تھا اب تو ڈانڈا گولی اور تشددسے بڑھ کر حالات کا مقابلہ کرنے کا وقت ہے تو پنجاب سے توقع ہی عبث ہے ایسے میں خیبر پختونخوا سے ایک ایسے توانا آواز اور قیادت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس پر حکومتی عہدے کا بوجھ نہ ہو اور ان کو کارکنوں کی بھر پور تائید و حمایت بھی حاصل ہو۔ سوشل میڈیا میں اگر کارکنوں کے مزاج و حمایت دیکھیں تو مراد سعید ہی عمران خان کے بعد ان کے ہیرو کے درجے میں نظر آتے ہیں مگر معلوم نہیں کہ سیاسی مصلحت و قیادت کا حکم ہے یا پھر دیگر مجبوریاں نو مئی کے بعد اگر کوئی کامیابی سے روپوش ہے تو وہ مراد سعید ہی یہی حالات رہے تو تحریک انصاف کی قیادت کے لئے انہی کو آنا ہوگا یا پھر تحریک انصاف کے جلسوں اور احتجاجوں میں جس طرح انتظام کاری کے تاثرات میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے جذبات کا گراف گرنے کا امکان ہے جب تک قیدی نمبر 804 باہر نہیں آتے کارکنوں کے جذبات اگر افادہ مختتم سے واپسی کی طرف رخ کر گئے تو پھر گولی کی واپسی کی رفتارکسی سے سنبھالی نہیں جائے گی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی مصلحت اور مجبوریوں کو سمجھنا مشکل نہیں لیکن کارکنوں کو لے کر وہ جس عزم اور جذبات کی انگیختگی کے ساتھ راولپنڈی روانہ ہوئے تھے اس پر پورا نہ اترنا اور ایک اور جذباتی صورتحال پیدا کرکے انقلاب کا راستہ دکھا کر برہان سے یوٹرن جیسے ماحول کو کارکن دن کے نصف وقت کچھ اور موقف اور ا ختتامی وقت برعکس کی حکمت عملی سمجھ نہیں پائے ہوں گے عمل کی مصلحت خواہ کچھ بھی ہو جوشیلے کارکنوں کے لئے تو یہ قابل قبول نہیں ہوسکتا صرف وزیر اعلیٰ ہی نہیں صوبائی وزراء ، سپیکر و ڈپٹی سپیکر، ممبران اسمبلی، بلدیاتی عہدیدار، پارٹی عہدیدار ہر کسی کے سوالات کے کٹہرے اور شکوک کی زد میں نظر آنا فطری امر ہے جب دور ہی جانا تھا تو شب کو کیوں نہ اٹھے قافلوں کی روانگی تاخیر سے او راستے میں وقت کا ضیاع کیوں؟ مجبوری جو بھی تھی شب کو اٹھتے شب کو چلتے اور منزل مراد سے پہلے ہی واپسی کی راہ پڑتی تو کارکن سوال نہ کرتے ۔ بہرحال تحریک انصاف کی قیادت کو بھی اس امر کا ادراک ہونا چاہئے کہ اب مزید اس طرح نیم دلانہ احتجاج سے سڑکوں پر ہجوم لانا مشکل ہوگا اور نہ ہی طویل ترین دھرنے کی تاریخ دہرائی جاسکے گی معاملات کا جلد حل نہ نکالا گیا اور تاخیر و انتظار کو چنا گیا تو پھرجنون کو بوتل میں بند کرنے والوں کو کامیابی ہو گی تحریک انصاف کے حصے میں کیا آئے گی اس کا فیصلہ خود کریں۔

مزید پڑھیں:  ججز کے درمیان خلیج اور عدلیہ