حکومتی عملداری کا سوال؟

مخدوش صورتحال اور سرکاری افسروں اور اہلکاروں پر حملوں کے خطرات کے پیش نظر ٹانک اور جنوبی وزیرستان کی عدالتوں کی ڈیرہ اسماعیل خان منتقلی نظام عدل اور عدالتوں کی منتقلی نہیں بلکہ اسے حکومتی عملداری کے خاتمے اور حکومتی دائرہ اختیار سے ان علاقوں کو عملی طور پر خارج کرنے کا عمل گردانا جا سکتا ہے۔صوبے میں امن وا مان اور عدالتی عملے سمیت دیگر سرکاری ملازمین بینکوں سمیت تحفظ طلب تمام افراد و محکموں کے حفاظت کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ وزیر اعلیٰ گورنر اور خود آئی جی کے آبائی علاقے میں امن و امان کی صورتحال کیا ہے اور کس طرح ججوں کے اغواء سمیت دیگر سرکاری ملازمین کو نشانہ بنانے کا عمل تسلسل سے ہوتا رہا بینکوں کی کیش وین جس آسانی سے لوٹ کر لے جائی گئیں اس کے باعث بینکوں کا وہاں پربرانچیں بند کرکے منتقلی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لوگوں کو انصاف ان کی دہلیز پر فراہمی ہر حکومت کا دعویٰ مقصد اور عدلیہ کی اولین ترجیح رہی ہے اس تناظر میں محولہ فیصلہ کا جائزہ لیا جائے تو جہاں انصاف کی فراہمی کے اداروں کی منتقلی کی نوبت آئے وہاں کے لوگوں کے تحفظ اور امن و امان سمیت حصول انصاف کا عمل ظاہر ہے تعطل کا شکار نہیں بلکہ عنقا ہی کے زمرے میں شمار ہو گا اس کے باوجود حکومت کی طرف سے علاقے میں کوئی بڑا آپریشن نہ ہونا پولیس کی مدد کے لئے پیرا ملٹری فورس سے مدد اور تطہیر اقدامات سے گریز بھی معمہ ہے ان معاملات سے قطع نظر جو بات شدت اور حیرت کے ساتھ محسوس ہونے والی ہے وہ یہ کہ خیبر پختونخوا کے جو سرحدی علاقے پنجاب سے متصل ہیں وہاں صوبہ خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں بھتہ خوری اور دہشت گردوں کے گشت سمیت حالات خراب ہونے کے کافی واضح شواہد ہیں جبکہ لکیر کے اس طرف پنجاب کے سرحدی علاقوں میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے یہ خاص حیران کن امر ہے کہ اس طرح کی صورتحال کیسے درپیش ہو سکتی ہے اور خیبر پختونخوا ہی میں دہشت گردی اور شدت پسندی کیوں طاری ہے یہاں کے عوام ہی کیوں نشانہ بنتے ہیں بتایا گیا ہے کہ اس صورتحال سے تنگ صوبے کے سرحدی علاقوں کے بعض باشندوں سے بھکر میانوالی اور ارد گرد کرایہ کے گھر لے کر رہنے لگے ہیں جہاں ان کو تحفظ کا کوئی مسئلہ نہیں ۔ سوات میں بھی اس طرح کے واقعات کے خطرات موجود ہیں لیکن وہاں کے عوام کے مشترکہ طور پر ان حالات کے خلاف آواز اٹھانے سے لے کر بندوق اٹھانے تک کے عملی اقدامات سے صورتحال قابو میں رہنے لگی ہے بہرحال اس طرح کے واقعات حکومتی ذمہ داریوں کے حوالے سے کوئی خوشگوار صورتحال کا باعث نہیں المیہ یہ کہ ضم اضلاع کے سرکاری دفاترپہلے ہی ان اضلاع کی حدود سے باہر تھیں عدالتوں کی ٹانک اور جنوبی وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل خان کی منتقلی ایک اور پسپائی ہے جس کے بعد وہاں کے عوام کا اپنا دفاع خود کرنے اور معاملات کا حل خود نکالنے اور روایتی جرگہ نظام کی بحالی اس طرف و مراجعت ہی کاراستہ بچتا ہے ایسے میں جس ”قامی عدالت ”کی گنجائش نہ ہونے کے حوالے سے موقف ہے وہ خود بخود کمزور پڑ جاتا ہے ظاہر ہے جب لوگ اپنے تحفظ سے لے کر تنازعات کے مقامی حل پر مجبور ہوں گے حکومتی عملداری ہی عملی طور پر چیلنج ہوتو پھر حالات ایک مرتبہ پھر ان علاقوں پر شدت پسند عناصر کے مسلط ہونے کی طرف جا سکتے ہیں یا پھر ان عناصر کی بالادستی فطری امر ہو گا جو حکومت او ریاست دونوں پر عدم اطمینان کا برملا ا ظہار کر کے اس بہانے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تگ ودو میں ہیں رفتہ رفتہ حالات و واقعات کا خود کو دہرانے کا عمل او رکمزور پڑتی حکومتی گرفت نیک شگون نہیں بلکہ اس سے حالات کے مخدوش ہونے کا عندیہ ملتا ہے جس سے نکلنے کا واحد راستہ حکومتی عملداری کا پوری قوت سے دفاع اور مضبوط قوت نافذہ کے ذریعے علاقے میں قیام امن اور استحکام امن یقینی بنانا ہے یہ حکومت کی اولین ذمہ داری بھی ہے اور وقت و حالات کاتقاضا بھی ۔ یکے بعد دیگرے انخلاء کا عمل محولہ عناصر کے لئے جگہ بنانے کا باعث بنتا جائے گا جس کے نتیجے میں حکومتی عملداری پر قانون شکن اور شدت پسند عناصر کے اثر ورسوخ میں اضافہ ہو گا اس کا تدارک کرنے میں مزید تاخیر مزید مشکلات اور ناکامی کی صورتحال کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے جس کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے تدارکی ا قدامات اور حکومتی عملداری کابھر پور قوت کے ساتھ تحفظ یقینی بنا کراس صورتحال کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ موقع کی تاک میں بیٹھے عناصر کو موقع نہ مل سکے او رحکومتی عملداری محفوظ اور مکمل ہو۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی قیمتوں میں کمی کی یقین دہانی