2 90

مشرقیات

”حضرت صلہ بن اشیمعبادت میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے سفر ہو یا حضر، کام ہو یا فراغت ،وہ اپنے معمول میں کوئی فرق نہ آنے دیتے۔جعفر بن زید بیان کرتے ہیں کہ لشکر اسلام کے ساتھ افغانستان کے دارالحکومت کابل کو فتح کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔اس لشکرمیں صلہ بن اشیمبھی تھے۔جب رات نے اپنی تاریکی کی چادر ہر سو پھیلا دی تو لشکرپڑائو کی غرض سے رک گیا۔ کھاناتناول کیااور نماز عشاء اد اکی۔ پھر وہ اپنے اپنے سامان سفر کے نزدیک آرام کے لیے لیٹ گئے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت صلہ بن اشیمبھی اپنے سامان کے پاس جاکر دراز ہو گئے۔کچھ دیر بعد میں کیادیکھتا ہوں کہ جب لشکر نیند کے سمندر میںغرق ہو گیا تو یہ چپکے سے اٹھے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لشکرسے دور ایک گھنے جنگل کا رخ کیا ، میں بھی دبے پائوں ان کے پیچھے ہو لیا۔ وہ درختوں کے اس گھنے جنگل کے ایک مہیب اور ڈرائو نے ماحول میں قبلہ رخ ہو کر دنیا و مافیہاسے بے نیاز نماز میںمصروف ہو گئے۔
گویا کہ وہ اس و حشت ناک ماحول سے مانوس ہیں۔ انہیں اس دوری اور تنہائی میںقرب کا احساس ہو رہاہے اور اسی گھٹا ٹوپ تاریکی میںروشنی کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ اچانک میں یہ دیکھ کر دم بخودرہ گیا کہ جنگل کی مشرقی جانب سے ایک شیر دبے پائوں چلاآرہاہے۔
میںگھبراہٹ سے پسینہ میں شرابورہوگیا۔اوراس سے بچنے کی خاطر ایک اونچے درخت پر چڑھ گیا۔
شیرحضرت صلہ بن اشیم کی طرف بڑھ رہاہے اور بدستور اپنی نماز میں مشغول ہیںصرف چندقدموں کافاصلہ ہے۔
بخداانہوںنے شیر کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھانہ اس کی پرواہ کی جب آپ سجدے میں گئے تو میں نے کہا اب شیران پر حملہ کر دے گا۔ جب آپ سجدے سے اٹھ کر بیٹھ گئے شیر آپ کے روبرو کھڑا ہو گیا گویاکہ وہ آپ کو غور سے دیکھ رہاہے، جب آپ نے سلام پھیرا تو انہوں بڑے سکون سے شیر کی طرف دیکھا اور چند کلمات پڑھے جو مجھے سنائی نہ دیئے۔ شیر اسی لمحہ بڑے آرام سے پلٹ کر اسی طرف چلا جاتا ہے جہاں سے آیا تھا، میںیہ منظر دیکھ کر ششدررہ گیا ۔جس دل میں اللہ کی صحبت اور خوف ہو دنیا کی کسی اور مخلوق سے اسے خوف محسوس نہیں ہو گا۔
ایک مرتبہ امام یوسف بیمار ہوئے تو امام ابو حنیفہ بھی تیمار داری اور بیمارپرسی کے لئے تشریف لائے ۔ واپس جاتے ہوئے قاضی ابو یوسف کے دروازے پر متفکر ہو کر کھڑے ہوگئے ۔ کسی نے حیرت واستعجاب اور تفکر و ملال کا سبب پو چھا تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا : ” خدانخواستہ اگر یہ جوان مرگیا تو زمین کا سب سے بڑا عالم اٹھ جائے گا ”۔ (حسن التقاضی)امام اعظم ابو حنیفہ کے پو تے اسماعیل بن حماد فرماتے ہیں کہ میرے دادا (ابو حنیفہ ) کے خاص اصحاب دس تھے ، لیکن ان میں امام ابو یوسف سے بڑھ کر کوئی نہ تھا۔
(سیر الصحابہ جلد 8,صفحہ 69)

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟