بادشاہوں کے ساتھ سواری

بادشاہوں کے ساتھ سواری کے قابل

حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضر موت (ایک علاقے کا نام ہے) میں زمین کا ایک ٹکڑا بطور جاگیر عطا فرمایا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے ساتھ بھیجا تھا کہ وہ زمین ان کے حوالے کر دیں۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ حضر موت کے نواب اور بڑے سردار تھے۔ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ ”حضر ت موت” کی طرف روانہ کیا تو حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ اونٹ پر سوار تھے۔ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی سواری نہیں تھی۔ اس لئے وہ پیدل ان کے ساتھ روانہ ہوئے۔ راستے میں جب صحرا (ریگستان)میں دھوپ تیز ہوگئی اور گرمی بڑھ گئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پائوں جلنے لگے۔ انہوں نے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ گرمی بہت ہے اور میرے پائوں جل رہے ہیں۔ تم مجھے اپنے ساتھ اونٹ پر سوار کرو تا کہ میں گرمی سے بچ جائوں تو انہوں نے جواب میں کہا۔ لَسْتَ مِنْ اَرَدِافِ الْمُلُوْ کِ” تم بادشاہوں کے ساتھ سوار ہونے کے قابل نہیں ہو”ہاں ایسا کرو کہ میرے اونٹ کا جو سایہ زمین پر پڑ رہا ہے تم اس سایہ میں چلتے ہوئے میر ے ساتھ آجائو۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے یمن تک پورا راستہ اسی طرح طے کیا۔ اس لیے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ جانے کا حکم فرمایا تھا۔ جس کی تعمیل بہر حال ضروری تھی۔ چنانچہ وہاں پہنچ کر زمین ان کے حوالے کی پھر واپس تشریف لے آئے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خود خلیفہ بن گئے۔ اس وقت یہی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ جو پہلے ایمان نہیں لائے تھے جنہیں وہ زمین دی گئی تھی جنہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ سوار بھی نہیں کرایا تھا۔جب وہ آپ سے ملاقات کے لیے یمن سے دمشق تشریف لائے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا اور ان کی عزت و تکریم کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ یعنی اس سابقہ واقعہ کی وجہ سے انہیں کسی طرح شرمندہ بھی نہیں کیا۔…

(ہر واقعہ بے مثال…صفحہ نمبر 268تا 269)

تبصرے بند ہیں