کبھی کبھار نہیں جہد مسلسل کی ضرورت

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی توہین مذہب کے الزامات میں خاص طور پر اور علاوہ بھی بالعموم شہریوں اور ہجوم کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی شرعی طور پر غلط اور قابل مذمت فعل ہونے کے حوالے سے علمائے کرام کو جمعہ کے خطبات میں آگاہ کرنے کی اپیل کافی نہیں، علمائے کرام ہر بار اس طرح کے واقعات کی مذمت اور ان کو خلاف شرع امر قرار دیتے آئے ہیں یہ بھی درست ہے کہ بعض دفعہ اس حوالے سے عدم احتیاط کے مظاہرے بھی ہوتے ہیں لیکن من حیث المجموع علمائے کرام کی سعی رہتی ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے شعور فراہم کریں۔ امر واقع یہ ہے کہ ملک میں اس طرح کے واقعات کی مذمت تو ہوتی ہے اور ان کی حمایت نہیں کی جاتی لیکن علاوہ ازیں ایک جذباتی فضا ضرور پیدا کی جاتی ہے جس کی ذمہ داری جہاں اس طرح کی فضا پیدا کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے وہاں بدقسمتی سے ریاستی اداروں کا کردار بھی مواقفانہ ہوتا ہے۔ غبارے میں اتنی ہوا بھری جاتی ہے کہ وہ بالآخر پھٹنے پہ آتا ہے لہٰذا بہتر صورت یہ ہو گی کہ علمائے کرام کے ساتھ ساتھ حکومتی ادارے بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں جس کی احسن صورت اس طرح کے گروہوں افراد اور عناصر کی حوصلہ شکنی اور ان کے خلاف بروقت اقدامات ہیں، ایک عرصے تک فرقہ وارانہ کشیدگی ملک میں پریشان کن صورتحال کا باعث بنی رہی، خدا خدا کرکے جب اس جن کو کسی نہ کسی طور پر بوتل میں بند کیا گیا تو دوسری شکل میں انتہا پسندی سامنے آئی اور ایک ایسا جنونی طبقہ سامنے آیا جو اس طرح کے واقعات کو ہی دین کی خدمت سمجھنے کی سنگین غلطی کا مرتکب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایک خاص علاقے اور صوبے میں آئے دن کسی نہ کی غلط فہمی کے باعث اس طرح کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں، ان واقعات کی بنیادی اور بڑی وجہ غلط فہمی ہی سے شروع ہوتے ہیں اور انتہا پسندی کے واقعات رونما ہوتے ہیں اگر ان واقعات کو غلط فہمی کی بجائے حقیقی واقعات بھی قرار دیا جائے تو بھی قانون کو ہاتھ میں لینا از خود خلاف شریعت امر ہے ایک غلطی کو سدھارنے کیلئے اس سے بڑی غلطی اور اپنے ہاتھوں انصاف کی اسلام اور ملکی قوانین دونوں میں کوئی گنجائش نہیں بار بار کے سامنے آنے والے اس قسم کے واقعات سے ملک کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بدخواہ عناصر کو یہ پراپیگنڈا کرنے کا موقع ہاتھ آتا ہے کہ جسے وہ بھی بھی جانے نہیں دیتے، علما و فضلا معاشرے کے عمائدین سول سوسائٹی اور حکومتی اداروں سبھی کو اس سلسلے میں کسی ایک موقع پر نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہئے عوام کی ذہن سازی اور ان کو اس فعل کے خلاف شرع و خلاف قانون کا قائل کرکے ہی اس طرح کے واقعات کے تدارک کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے جس پر ہمہ وقت کام کی ضرورت ہے۔
صوتی آلودگی، بلاامتیاز کارروائی کی ضرورت
مساجد میں لائوڈ سپیکر کا استعمال اذان و خطبات تک محدود کرنے میں علمائے کرام کی جانب سے شہروں میں تو پوری طرح تعاون موجود ہے ممکن ہے قصبات اور گائوں میں اس کی اب بھی ضرورت ہو کہ لائوڈ سپیکر کے غلط استعمال کے حوالے سے اقدامات کئے جائیں اس سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو لائوڈ سپیکر میگا فون اور بلند آواز سے گانا بجانا سمیت دیگر قسم کی صوتی آلودگی کی روک تھام کیلئے پابندی اور ممانعت کے باوجود کوئی اقدامات نظر نہیں آتے، کبھی حکام نے کسی محلے میں شادی و منگنی کی تقریبات میں رات گئے آسمان سر پر اٹھائے شور و غل اور ڈیک پر بلند آواز میں گانا لگانے کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے؟ اس کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے، دیکھا جائے تو بہت سے تکلیف دہ بلاوجہ اور خلاف شرع عمل یہی ہے مگر اسے شاید ثقافت کا درجہ دیدیا گیا ہے پریشر ہارن کا استعمال اور میگا فون استعمال کرکے بلند آوازیں لگا کر سودا فروخت کرنے والوں سے مساجد سے لیکر تعلیمی ادارے درس گاہیں اور عوام سبھی متاثرہ ہیں مگر مسجد کے صدر دروازے پر اس فصل کا ارتکاب پر تو صرف نظر ہے ایسے میں مسجد کے لائوڈ سپیکر ہی قانون کے مطابق استعمال کی پابندی کا موجب ٹھہرتا ہے اصول اور قوانین کا اطلاق یکساں ہونا چاہئے اور شہری حکام بلا امتیاز اس صورتحال کا نوٹس لیں اب جبکہ حسب سابق ایک مرتبہ پھر لائوڈ سپیکر کے صحیح استعمال کی ضرورت کا حکام کو احساس ہوا ہے تو توقع کی جانی چاہئے کہ اس پر عمل درآمد کی نوبت بھی آئے گی۔
لاینحل مسئلہ
اہم شاہراہوں پر مظاہرے روکنے کے عمل میں حکومت کی عدم دلچسپی حیران کن ہے اس ضمن میں ایک مرتبہ پھر عدالت کی جانب سے حکومت کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دے کر لائحہ عمل بنانے کا حکم فوری عملدرآمد کا متقاضی ہے صوبائی دارالحکومت کی واحد مرکزی سڑک کو جب آئے روز مظاہرین بند کرتے ہیں تو پورا شہر مفلوج ہو جاتا ہے اور شہری ٹریفک کے ایسے گرداب میں پھنس جاتے ہیں کہ اس بھنور سے نکلنا ممکن ہی نہیں ہوتا جس کے باعث نہ تو ایمبولینس کو راستہ ملتا ہے نہ ہی طبی عملہ بروقت ہسپتال پہنچ پاتا ہے ضعفاء اور خواتین کی تکالیف کا احساس ہی کیا جا سکتا ہے من حیث المجموع یہ ایک ایسا تکلیف دہ عوامی مسئلہ ہے جس کے حل کے بار بار مطالبات کے باوجود حکومت اس حوالے سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنے سے نجانے کیوں معذور ہے، یہ صورتحال خود حکومت و انتظامیہ کیلئے بھی مشکلات و تنقید کا باعث ہے اس حوالے سے جتنا جلد کوئی ٹھوس فیصلہ اور اقدامات کئے جائیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟