نوبت بہ ایں جا رسید

دور تک پھیلا ہوا ایک انجانا سا خوف اس سے پہلے یہ سمندر اس قدر برہم نہ تھا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جرأت مندانہ کردار کی ادائیگی اور قربانیوں کی تاریخ رقم کرکے خیبرپختونخوا پولیس تھانوں میں ایسی محو استراحت ہوئی کہ بجائے اس کے کہ پولیس قانون شکنوں کو چیلنج کرتی، الٹا ان کی جانب سے تھانوں پر حملے کی دھمکی دیدی گئی ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اس طرح کی دعوت مبازرت جس نے بھی دی ہے اور جس طرح بھی چوری چھپے دی ہو گی اس سے یہ بات بہرحال پوری طرح عیاں ہے کہ اب خیبرپختونخوا پولیس اتنی فعال اور چوکنا نہیں رہی کہ تھانے آ کر خود کو دھمکانے والے ہی سے باخبر ہوتی، ان دھمیکوں میں کس قدر سنجیدگی ہے یا پھر یہ کسی کی شرارت ہے یا ممکن ہے یہ بعض اداروں کی جانب سے پولیس کو جگانے کی کوئی سوچی سمجھی حرکت ہو جو بھی عنصر کار فرما ہو یہ پولیس کے پورے ادارے کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں، شہر میں لگے کیمرے اور تھانوں کے اردگرد کی کی چشم بینا سے نظر آنے والے حفاظتی اقدامات اور پوشیدہ نگرانی کا عمل سب کو ایک جگہ نہیں تین سے چار اہم تھانوں کے قرب و جوار میں آ کر آزما لیا گیا ہے اور اس آزمائش میں پولیس بے خبر لاعلم اور ایسا کرنے والے عناصر ہوشیار چالاک اور اپنا مقصد حاصل کرنے والے ٹھہر گئے۔ معروف چار تھانوں میں اگر پولیس کی نگرانی اور خود حفاظتی کا یہ عالم ہے تو پھر باقی میں کیا عالم ہوگا اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے تیئں یہ حکومت کیلئے بھی ایک چشم کشا انتباہ ہے خود وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کبھی کبھار تھانوں کا معائنہ اور پولیس کی چوکسی کا جائزہ لے چکے ہیں بہرحال یہ وزیر اعلیٰ کا کام نہیں بلکہ آئی جی اور محکمہ داخلہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات پر نظر رکھیں اور قانون کے نفاذ اور خاص طور پر ذمہ داروں کو متحرک اور فعال رکھیں مگر یہاں جو صورتحال مدنظر ہے اس میں خود پولیس کے تحفظ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ پوسٹر کسی جرائم پیشہ گروہ کی کارستانی ہے یا پھر کسی جانب سے ملفوف انتباہ۔ اس کے ذمہ داروں کو پولیس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے تھا، پولیس کو ایسا کرنے والوں کو گرفتار کرکے انہی کی زبانی یہ بتانا چاہئے تھا کہ پولیس کو کس قسم کے چیلنج درپیش ہیں، دھمکی ملنے کے بعد تھانوں کے سامنے بکتر بند گاڑیاں کھڑی کرنا اور سادہ پارچہ جات میں عملہ کی تعیناتی کوئی انتظام نہیں، بکتر بند گاڑیاں اب کھڑی کرنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے تو اس کی گنجائش ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبل ازیں پولیس حالات کو معمول سمجھ کر خود حفاظتی سے سراسر غفلت کا شکار تھی ایسے میں عوام ان سے کیا توقعات وابستہ کرلیں یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں کہ سٹریٹ کرائمز میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے، پولیس سے تو منشیات کے عادی افراد بھی خوف نہیں کھاتے یا پھر پولیس تھانوں کی عمارتوں سے باہر نکلتی ہی نہیں کہ جنگلے اکھا کر کباڑ میں بیچنے والی ان ٹولیوں سے نمٹتی، خیبرپختونخوا پولیس کا ایک کردار وہ تھا جب اس کے جوان خود کش حملہ آوروں سے نمٹنے کیلئے اہم جگہوں پر تعینات تھے، پشاور پریس کلب کے صدر دروازے پر ایک پولیس اہلکار تبادلے کے بعد سفارش کروا کے دوبارہ تعینات ہوئے اور یقینی خطرے اور دھمکیوں کا عملی طور پر سامنا کرکے رتبہ شہادت پر فائز ہو گئے اسی طرح کی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جو خیبرپختونخوا پولیس کا روشن چہرہ ہے ہر سال جب پولیس شہداء کی یاد میں ایک دن منایا جاتا ہے تو ماضی کے واقعات اور جری پولیس اہلکار و ہر عہدے کے افسران کی قربانیاں ذہن اور یاد میں تازہ ہو کر عجیب سرشاری کا شکار بنا دیتے ہیں لیکن ماضی کی یادوں کے سہارے عوام کو تحفظ کا احساس نہیں دلایا جا سکتا، سکیورٹی ایک جہد مسلسل کا نام ہے جس میں لمحہ بھر چوک کی گنجائش نہیں کجا کہ نوبت اس کی آئے کہ جرائم پیشہ عناصر تھانوں کی عمارتوں کے دروازے کھٹکھٹا کر خبردار کرنے لگیں، اس ساری صورتحال سے یہ پوری طرح واضح ہے کہ پولیس گشت اب نام کا بھی نہیں رہا، تھانوں کی پولیس نفری کا گشت اب کہیں نظر نہیں آتا البتہ موٹر سائیکل سوار دستے کے اراکین کبھی کبھار نظر آتے ہیں لیکن معلوم نہیں ان کی تعیناتی تھانوں کی سطح پر ہے یا پھر مخصوص مقامات پر ہے یا پھر مخصوص مقامات پر ان کو گشت کی ہدایت ہے اس لئے کہ یہ شہر کے ہر حصے اور ہر تھانے کی حدود میں نظر نہیں آتے، ہر علاقے میں گشت کیلئے گاڑی میں سوار دستے کا گشت کا عمل بھی اب پہلے کی طرح فعال نہیں، تھانے کی موبائل مفت روٹی، چھولے اور سبزی و آٹا لانے کا کام لیا جا رہا ہے اس حوالے سے بار بار کی شکایات اور حکومت کے علم میں آنے کے باوجود کوئی گرفت نہیں ہوتی، پولیس کے کردار و عمل کا جائزہ اور اس کی ناقص کارکردگی کی داستان بڑی طویل ہے جس سے قطع نظر اس وقت پولیس کو جو باقاعدہ دھمکی دی گئی ہے اس کے سدباب اور اس کے مقابلے پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے پولیس اپنا تحفظ یقینی بنائے گی تو عوام کو بھی تحفظ دے پائے گی۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں