تحریک عدم اعتماد واقعات و معاملات

اسلام آباد میں جگہ جگہ بیٹھکیں لگ رہی ہیں۔ سب کو سب کچھ معلوم ہے اور کسی کو کچھ بھی نہیں معلوم۔ ہر کوئی ایسی قطعیت سے بات کر رہا ہے کہ جیسے بال ٹو بال کمنٹری کر رہا ہو اور وہ بہ نفس نفیس طاقت کے ایوانوں میں جوڑ توڑ دیکھ رہا ہو۔ صحافی، نیم صحافی اور کاروباری صحافی سب کے پاس ”اندر کی خبر”ہے۔ حیرانگی اس بات پر کہ اندر تو اتنی جگہ بھی نہیں کہ جتنی خبریں باہر نکلتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اطلاعات کا یہ بہائو کبھی بھی قابو سے باہر نہیں رہا۔ میری اپنی صحافتی زندگی میں ” معاملات ” ہمیشہ ”واقعات”پر بھاری ثابت ہوئے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اپوزیشن والے ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ حکومت گئی کہ گئی اور جب طاقتور حلقے حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو حکومت ڈھول پیٹنا شروع کر دیتی ہے کہ اگلے پانچ سال بھی ہمارے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ” اشرافیہ ” کی صحافت میں اصل صحافت تو کہیں دم توڑ گئی ہے۔ عالمی سطح پر یہی وجہ ہے کہ میڈیا کی آزادی میں تو ہم زوال کا شکار ہیں ہی لیکن کوئی صحافی انفرادی طور پر پلٹزر نہیں جیت پایا۔ حالیہ ”واقعات”کی روشنی میں ملک کے بڑے بڑے صحافیوں نے صرف یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دیئے کہ جو کچھ بھی ہے میاں نوازشریف’ شہباز شریف’ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو ہی پتا ہے اور وہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کر رہے۔ بقول نظیراکبرابادی،
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم
جو خبر ہے وہ یہ کہ تحریک عدم اعتماد پر اتفاق طے پا گیا ہے۔ لیکن یہ تو کوئی خبر نہیں یہ تو کسی چھوٹے گائوں کے غریب سرپنچ کو بھی پتا ہے۔ دوسری خبر یہ کہ اس بار”وہ”نیوٹرل رہیں گے۔ لیکن یہ بھی کوئی خبر نہیں کیونکہ ایسا تو عرصہ سے کہا جا رہا ہے۔ خبر یہ ہوگی کہ معاملات کیا طے پائے ہیں اور یہ خبر فی الوقت کسی جغادری صحافی کے پاس نہیں ہے۔ ہمیں یہ قطعاً نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے معاملات کم ازکم وطن عزیز میں طے نہیں پاتے۔ دراصل جب سے فرنگی اس خطہ میں آئے ہیں تب سے اس خطہ کے فیصلے سات سمندر پار ہوتے رہے ہیں اور لگتا ہے مستقبل میں بھی ہوں گے۔ تو اگر وہاں معاملات طے پا چکے ہیں تو مارچ میں آپ کو تبدیلی کی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن معاملات ”جیسے تھے” والی پوزیشن پر نہیں جائیں گے۔ دیکھا جائے تو ہمارے اندرونی اور بیرونی چیلنجز دونوں اب اپنی انتہا پر چلے گئے ہیں اور یہاں تک پہنچانے کے لئے کافی محنت کی گئی ہے۔ افغانستان کے ساتھ حالات روزبروز بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں۔ اب تو انہوں نے واضح کہہ دیا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی پاکستانی طالبان نہیں ہیں اور نہ ہی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کی کشمیر کے بعد مسلمانوں کے خلاف جارحیت ہمارے لیئے مشکلات مزید بڑھا رہی ہے۔ مغربی دنیا نے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے نام پر ہمارا اقتصادی جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عالمی سطح پر ہم بالکل تنہا رہ گئے ہیں۔ یہ ہم مانیں یا نہ مانیں عالمی برادری کو اب اس سے کوئی عرض نہیں ہے۔ اب وزیر اعظم روس کا دورہ کر رہے ہیں۔ یاد رہے روس ہمارے حوالہ سے نہ کسی غلطی فہمی کا شکار ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ ایسے میں اندرونی سیاسی انتشار معاملات کو مزید بگاڑ کی طرف لے جائے گا۔ ہاں اگر مغرب نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ لندن میں مقیم میاں نوازشریف اب کوئی ایڈونچر نہیں کرے گا جیسے سی پیک وغیرہ اور باقی جماعتوں نے بھی عبرت پکڑ لی ہو تو ہوسکتا ہے کہ نئے سیٹ اپ کے ساتھ انیاں جانیاں شروع کرکے جیبیں ڈھیلی کریں۔ یہ بھی امکان ہے کہ نئے سیٹ اپ کو آئی ایم ایف کے قرضے کی ری شیڈولنگ کا حق دیا جائے۔ افغانستان مسئلہ پر پاکستان کے لیئے امدادی پیکیجز حاصل کیئے جائیں۔ خلیجی ریاستوں اور جاپان جیسے یاروں کو کہا جائے کہ پاکستان کی امداد ضروری ہے۔ بڑے بڑے پراجیکٹس کے نام پر پاکستان کو اس گرداب سے نکالا جائے۔ لیکن ٹھریئے!یہ سب کچھ اس وقت ہو گا کہ جب ایجنڈے کی تکمیل کا یقین ہو اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تو چھوڑیں یہ بندوبست اگلے پانچ سال کے لیئے بھی موجود رہے گا۔ اب آتے ہیں معاملات کی جانب دراصل افغانستان سے انخلا کے بعد جس طرح روس اور چین نے امریکہ اور مغرب کو آنکھیں دکھانی شروع کردیں گو کہ یہ انخلا امریکہ اور مغرب کے گرینڈ ڈیزائین کا ایک حصہ ہے لیکن ظاہری بات ہے کہ اس کو ان کی شکست اور کمزوری کے طور پر لیا گیا۔ حالانکہ خود پاکستان یہ نہیں چاہتا تھا۔ پاکستان اسی اور نوے کی دہائی میں ایک منتشر افغانستان کے مسائل کو دیکھ چکا تھا لیکن جس گرینڈ ڈیزائین کا کہا گیا اسی گرینڈ ڈیزائین کے لئے امریکہ کا انخلا ایسے ہی طے کیا گیا تھا۔ اب جب چین اور روس نے تیزی دکھانی شروع کی تو امریکہ اور مغرب کو احساس ہوا کہ زیادہ عرصہ کے لیئے پاکستان پر دبائو نہیں ڈالا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان کو خود سے دور رکھنا عقلمندی ہو گی۔ گو کہ پاکستان نے یہ تاثر دیا کہ ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں اس لیئے پاکستان کو موقعہ دیا گیا اپنی زندگی جینے کا یہ الگ بات ہے کہ کسی نے بھی اس طرح ہاتھ نہیں بڑھایا جیسی کہ ہماری قیادت کو توقع تھی۔ اس لیئے ہمارے ہاں بھی یہ رحجان جنم لے رہا ہے کہ نام نہاد ”اتحاد”بنا کر ہمارے اقتصادی مسائل حل ہونے سے رہے اس لیئے اب اس در پر دوبارہ کھڑے ہیں جس کو چھوڑنے کی ہم دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ اگر دونوں جانب سے معاملات اس جگہ پر پہنچ چکے ہیں تو عدم اعتماد کیا ہزار اور مواقع ہیں اس حکومت کے خاتمہ کے جیسے کہ الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس میں دونوں فریقین کو طلب کرنے والی ہے اور اس کے بعد فیصلہ جاری کیا جائے گا۔ ہماری خبر ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں دیگر مواقع کی طرح ایک موقع یہ بھی ہوگا۔ لیکن جیسے کہ عرض کیا گیا کہ اگر معاملات جن کا ذکر کیا گیا وہ طے نہیں پائے گئے ہوں تو پھر حکومت جو بھی بنے صورتحال اس طرح بگڑتی رہے گی جیسے ہو رہی ہے۔ عام آدمی کے لیئے مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ امید تو دلائی جا رہی ہے کہ جلد حالات بہتر ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت