چارہ گر پھول پرولائے ہیں تلواروں میں

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے ‘ کفر کی حکومت تو چل جاتی ہے ‘ ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی ‘ ان کا یہ فرمان یاد آنے کی وجہ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو ہے جس میں پی ڈی اے کے بعض ملازم ریڑھی بان بچوں پر تشدد کرتے ہوئے ان کی ریڑھیوں کو الٹ کر اشیائے خورد و نوش کو زمین پر گراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ‘ بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق ان کی ہتھ ریڑھیاں بھی قبضے میں لے کر ضبط کر چکے ہیں ‘ ان کے اس”غیر قانونی” ا قدام پر ڈائریکٹر جنرل پی ڈی اے نے اخباری اطلاعات کے مطابق انہیں ملازمت سے برخواست کیا ہے ڈی جی کے اس اقدام کے پیچھے یقینا اس واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو ہی دکھائی دیتی ہے ‘ اور ماضی میں نہ صرف پی ڈی اے ‘ بلکہ میونسپل اداروں کے ملازمین کی جانب سے روا رکھے جانے والے ایسے ہی رویوں پر شاید ہی ایسا کوئی اقدام اٹھایا گیا ہو ‘ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ شہر میں تہہ بازاری اور ہتھ ریڑھیوں پر فروٹ ‘ سبزیاں وغیرہ فروخت کرنے والوں کے ساتھ متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کا جابرانہ اور ظالمانہ رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ‘ یہ اہلکار نہ صرف اپنے لئے رزق حلاق حلال کمانے والوں کے ساتھ اسی قسم کی رعونت کا عملی اظہار کرتے ہیں اور ان کی دکانیں الٹ دیتے ہیں ‘ سامان زمین پر گرا کر تہس نہس کر دیتے ہیں ‘ ان سے بھتہ وصول کرتے ہیں ‘ بلا قیمت ادائیگی فروٹ ‘ سبزباں اور دیگر چیزیں ہتھیا لیتے ہیں بلکہ انہیں مارپیٹ کر بے عزت بھی کرتے ہیں ‘ یہ تو روزانہ کا رویہ ہے ‘ ان کے علاوہ کئی بار ایسی ویڈیوزبھی وائر ل ہوئی ہیں جن میں علاقہ تھانیدار ‘ اے ایس آئی اور کبھی کبھی پولیس حوالدار تک ان تہہ بازاروں اور ریڑھی بانوں پر اپنی ”مہربانیوں” کے مظاہرے کرتے نظر آرہے تھے ‘ اکثر ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ جہاں کسی غریب ریڑھی بان یا تہہ بازاری نے ایسے ہی اہلکاروں سے سودا حاصل کرنے کے بعد رقم مانگی تو اس کی شامت آگئی ‘ ایسے ”دکاندار” بعض اوقات ” رو رو کر” گلہ کرتے ہیں کہ اتنا تو انہوں نے کمایا بھی نہیں جتنا یہ لوگ آکر”وصول” کر لیتے ہیں ۔ اس قسم کے فرعونانہ رویئے کا جواز کیا ہے ؟ اور ان لوگوں کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ یہ غریب لوگوں کو اپنی چیرہ دستیوں کا شکار کرکے ان پر ظلم ڈھائیں ‘ اس حوالے سے قواعد و ضوابط کیا ہیں ‘ یعنی اگر کسی نے متعلقہ اداروں سے لائسنس حاصل کر رکھا ہے اورخواہ وہ کسی جگہ زمین پر بیٹھ کر کچھ فروخت کرنے کا اجازت نامہ ہو ‘ یا پھر ہتھ ریڑھی کا لائسنس ہو ‘ یا اور کوئی اجازت نامہ اس کے بعد ان کے خلاف ظالمانہ اقدام اٹھانے ‘ ان کو رزق کمانے سے منع کرنے اور ان کی”دکانیں” الٹنے ‘ ہتھ ریڑھیاں ضبط کرنے کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے ‘ ملک میں بے روزگاری پہلے ہی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کو رزق کے حصول میں انتہائی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ‘ لوگ خط غربت کی لکیر کے نیچے جا نہیں رہے بلکہ لڑھک رہے ہیں ‘ اوپر سے جن کو حلال رزق کے لئے محنت کرنا پڑ رہی ہے اگر ان کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک اختیار کیا جائے گا اور روزی روٹی سے محروم کیا جائے گا تو کیا وہ مجرمانہ سرگرمیوں کی جانب راغب ہو کر معاشرے کے لئے”ناسور” بننے کی کوشش میں چوری چکاری ‘ چھینا جھپٹی ‘ ڈاکہ زنی جیسے منفی رویئے اختیار نہیں کریں گے؟ یہ تو اس سوشل میڈیا کی”مہربانی” ہے کہ اب ہر شخص کے ہاتھ میں کیمرہ آگیا ہے اور وہ اس قسم کے واقعات کو فوراً ریکارڈ کرکے نیٹ کے ذریعے پھیلا کر ان مظالم کی نشاندہی کر دیتے ہیں ورنہ اس سے پہلے تو نہ جانے کتنے ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے تھے مگر کبھی ریکارڈ پر نہ آسکے کہیں کسی صحافی کو خبر ملی تو”مبینہ” کے سابقہ کے ساتھ تحریر کرکے عوام کو باخبر کر دیا ‘ مگر اب نہ لاحقہ ‘ نہ سابقہ کی ضرورت رہتی ہے کہ بقول شاعر
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
کا اصول بھی تلپٹ ہو چکا ہے ‘ نہ صرف دیکھنے والی آنکھ ‘ دوسروں کوبھی دکھاتی ہے بلکہ ویڈیو کی صورت میں آوازیں ‘ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” کی تفسیر بن کر کانوں میں گونجتی رہتی ہیں ‘ اور احمد ندیم قاسمی کے الفاظ میں تصویر ہو جاتی ہیں کہ
ذکر کرتے ہیں تیرا مجھ سے بہ عنوان جفا
چارہ گر پھول پرولائے ہیںتلواروں میں
تہہ بازاری کے حوالے سے بھی طبقات ہیں ‘ ایک جانب ایسے غریب ‘بے بس اور کمزور لوگ ہیں جن کے ساتھ ”ظلم” کی داستانیں وابستہ ہیں ‘ دوسری جانب شہر ‘ صدر اور یونیورسٹی روڈ پر سرکاری قوانین کا مذاق اڑانے اور ان قوانین کو جوتی کی نوک پر رکھنے والے وہ طاقتور مافیاز ہیں جنہوں نے ان بڑے بازاروں کی فٹ پاتھوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے ‘ صرف ایک دو مثالوں سے وضاحت کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ خیبر بازار ‘ قصہ خوانی ‘ صدر روڈ وغیرہ پر دکانوں کے سامنے بنے ہوئے فٹ پاتھوں پر جو تہہ بازاری مستقل قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور عملاً جو فٹ پاتھ عام لوگوں کے لئے پیدل چلنے کی سہولت مہیا کرنے کے لئے تعمیرکئے گئے ہیں ‘ ان کو ان غیر قانونی تہہ بازاریوں نے جبراً قبضہ جما کر پیدل چلنے والوں کو عذاب سے دو چار کر رکھا ہے ‘ اور یہ لوگ نہ صرف متعلقہ دکانداروں کو بھاری کرایہ ادا کرتے ہیں’ بلکہ ”اداروں” کے ان اہلکاروں کی مٹھی بھی مبینہ طور پر گرم کرکے من مرضی کرتے ہیں ‘ ان سے کوئی پوچھ گچھ کرنے والا ایسا کوئی اہلکار نظر نہیں آتا جو کمزور ‘ بے بس اور غریب ہتھ ریڑھی والوں پر ظلم توڑنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتا ‘ مستزاد یہ کہ خصوصاً خیبر بازار میں فٹ پاتھ کے ساتھ سوزوکیوں اور لوڈروں کی قطاریں کھڑی رہتی ہیں اور عام شہریوں کو سودا سلف خریدنے کے لئے آکر اپنی گاڑیاں پارک کرنے کے لئے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ایک اور مسئلہ ہے کیونکہ یہ سوزوکیاں ‘ لوڈر اور ٹیکسیاں ان دکانوں پر فروخت کی جانے والی گھریلو الیکٹرانک سامان لانے لے جانے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی گاڑی سامان ڈھونے کے لئے روانہ ہوتی ہے تو دکاندار خالی جگہ پر ریفریجرٹرز اور واشنگ مشینوں کی خالی کارٹن رکھ کر عام شہریوں کی گاڑیوں کو پارک ہونے نہیں دیتے ‘ بقول غالب
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں