جمہوریت کانفرنس سے اولمپک مقابلوں تک

امریکہ اور چین کے درمیان کشمکش نئی منزلوں اور نئے راستوں کی طرف بڑھ رہی ہے ۔دونوںعالمی سطح پر مطلق اثرو رسوخ اور بالادستی کی ان راہوں کے لئے ہم سفر اور ہم رکاب تلاشنے اور تراشنے کی بھرپور کوششوں میں مگن ہیں ۔اس کھینچا تانی میں نیمے دروں نیمے بروں والا بیانیہ زیادہ کارگر ہوتا دکھائی دیتا جس کو اپنا کچھ ملک اس کشمکش سے الگ رہ سکیں ۔بالکل اسی طرح جیسا کہ سرد جنگ کے دور میں کچھ ملکوں نے امریکہ اور روس کے بلاکوں سے الگ رہنے کی پالیسی اپناتے ہوئے غیر جانبدار تحریک کی بنیاد رکھی تھی ۔اس کھیل میں تماشا یہ تھا کہ غیر جانبداری کا سب سے بڑا دعوے دار بھارت سوویت یونین کا قریبی اتحادی بن بیٹھا تھا ۔بھارت صرف اس وقت غیر جانبداری کا چولا پہنا کرتا جہاں اسے امریکہ سے مفاد لینا ہوتا تھا وگرنہ عام حالات میں غیر جانبدار تحریک کے سب سے اہم رکن بھارت کا وزن سوویت یونین کے پلڑے میں ہوتا۔اب جو نئی کشمکش اُبھر رہی ہے اسے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس نے نیم گرم جنگ قرار دیا تھا ۔گویاکہ یہ سر د جنگ سے آگے کی بات ہے جس میں نیم گرمی یا کچھ نہ کچھ حدت موجود ہے۔روس کے بعد چین کے لئے پاکستان ایک اہم ترین اتحادی ہے ۔امریکہ نے جمہوریت کانفرنس منعقد کرکے اپنے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ایک لکیر کھینچنے کی کوشش کی تو چین نے اولمپک کھیلوں کے نام پرایک عالمی سرگرمی کرکے اپنی صفوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ۔جنوبی ایشیا کے دوروایتی حریف پاکستان اور بھارت سردجنگ کی طرح بقول انٹونیو گوئٹرس نیم گرم جنگ میں بھی دو الگ مداروں میں گردش کرتے نظر آئے ۔پاکستان نے دعوت کے باوجود امریکہ کی جمہوریت کانفرنس میں شرکت نہیں کی تو بھارت نے چین کے اولمپک کھیلوں کا بائیکاٹ کرکے مستقبل کے مقام کا تعین کیا ۔یوں امریکہ کی جمہوریت کانفرنس کو امریکہ کی اولمپک گیمز کہا جائے یا چین کی اولمپک گیمز کو چین کی جمہوریت کانفرنس قراردیا جائے مطلب ایک ہی ہے کہ دونوں عالمی طاقتوں نے ان سرگرمیوں کے ذریعے اپنی اتحادی صفوں کا جائزہ لے کر نئی صف بندی کرنے کی کوشش کی ۔امریکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کو چین کے اس انداز سے قریب ہونے سے روکنے کی پوری طرح کوشش کرتا رہا ۔ گزشتہ عشروں کے دوران بھارت کے ساتھ پاکستان کے مسائل کو سرجری کی بجائے سکون آور گولیوں سے حل کرنے کی کوششوں کا مقصد یہی تھا کہ دونوں روایتی حریفوں کو اس حد تک نرم کیا جائے کہ انہیں امریکی کیمپ میں ایک ساتھ بیٹھنے میں کوئی عار محسوس نہ ہو۔یہ عمل چین سے دوستی کی قیمت پر نہ ہوتا تو شاید کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہوتا مگر اس عمل میں پاکستان کو چین کی آزمودہ اور روایتی دوستی سے ہاتھ دھونا تھا ۔اس لئے پاکستان کے لئے بھارت کے مقابلے میں چین کی دوستی سے ہاتھ دھونا مہنگا سودا تھا اسی لئے پاکستان چین سے کاٹے جانے کی کوششوں کی مزاحمت بھی کرتا رہا اور اس کی قیمت بھی ادا کرتا رہا ۔اس کی تازہ ترین قیمت اس وقت چکائی گئی جب وزیر اعظم عمران خان نے اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے چین روانہ تھا ۔بلوچستان میںجو اس عالمی کھیل کا اہم ترین مرکز ہے دو شہروں پنجگور اور نوشکی میں فوجی کیمپوں پر انتہائی جدید ہتھیاروں سے حملے کئے گئے ۔یہ پاکستان کو باور کرانے کی کوشش تھی کہ امریکہ سے الگ ہو کر چین کے ساتھ چلنے کی پاکستان کو کیا قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے ۔دلچسپ بات یہ کہ جب عمران خان بیجنگ میں موجود تھے تو امریکہ کی طرف سے پاکستان کو سٹریٹجک پارٹنر قرار دے کر کہا گیا کہ امریکہ کے ساتھ دوستی کے لئے چین کو چھوڑنے کی کوئی شرط نہیں ۔ہر ملک اپنے تعلقات میں آزاد ہوتا ہے۔عمران خان کے بیجنگ میں پہنچنے کو مغرب میں یہ جانا گیا کہ پاکستان نے مغربی بلاک کو بائے بائے کہہ کر چین کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کو سٹریٹجک پارٹنر جیسے اعزاز سے نواز ا۔یہ وہ ”اعزاز” ہے جس کے لئے پاکستان دہائیوں سے تڑپتا مچلتا رہا ہے ،درخواستیں کرتارہا۔اس کے جواب میں امریکہ یہ تاثر دیتا تھا کہ اس کی سٹریٹجک پارٹنر شپ صرف اسرائیل اور بھارت کے ساتھ ہے پاکستان کے ساتھ دیہاڑی دار اور آجر واجیر کا تعلق ہے اور رہے گا۔پاکستان سو جوتے اور سو پیاز کھا کر آخر کار لڑھکتا ہوا چین کے پاس جا پہنچا تو اب امریکہ نے پاکستان کو سٹریٹجک پارٹنر قرار دیا مگر شاید اب پلوں تلے بہت سا پانی بہہ گیا ہے ۔عمران خان کے دورے اور بیجنگ میں ہونے والے معاہدات سے چین اور پاکستان کی قربتوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوااور بھارت سے بلند ہونے والی چیخیںیہی کہانی سنا رہی ہیں ۔ چین کا دورہ جاری تھا کہ سونے پر سہاگہ پیوٹن کی طرف سے دورۂ ماسکو کی دعوت ثابت ہوئی ۔راہول گاندھی نے اسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا تھا کہ نریندرمودی کی پالیسیوں نے بھارت کو علاقے میں تنہا کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین