تیسری جنگ عظیم کا امکا ن ؟

کیا کسی وقت بھی یو کرائن کے معاملے پر تیسری جنگ عظیم چھڑ سکتی ہے ۔ مبصرین حرب کا خیال ہے کہ روس کے ایک لا کھ سے زیا دہ فوجی یو کرائن کی سرحد پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور روس نے جر منی کی کا وشوں کے باوجو د اپنی فوجیں پیچھے نہیں ہٹائی ہیں جس سے رو س کے عزائم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔مبصرین کی جا نب سے جو بات نہ کہی گئی وہ یہ ہے کہ روس نے سوویٹ یو نین کی تحلیل کے بعد سے کسی بھی ملک پر حملہ نہیں کیا ہے ، جبکہ امریکا کا ریکا رڈ اس سلسلے میں گھناؤنا ہے کیو ں کہ امریکا نے اس عر صہ میں پچاس سے زیا دہ ممالک پر حملہ کیا ہے یاحکومتیں گرائیں ہیں ، علا و ازیں آٹھ سو سے زیا دہ فو جی اڈے قائم کیے ہیں ۔ حدیہ ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی میڈیا پر اس کی اطلا ع نہیں دی جا تی ، اس کے مقابلے دنیاکی تما م تر توجہ ”شریر پیوٹن ”پر مبذول کر ادی گئی ہے ۔اسی طرح یو کرائن کی سرحد پر ایک لا کھ فوجیو ںکی مو جو دگی کو پورے یو رپ اور مغربی دنیا میں ایک عالمگیر جنگ میںجھونکے جا نے کا خوف دیا جا رہا ہے ۔اس پر سرار جنگی پروپیگنڈا کو اچھالنے کا ایک ایسا مقصد لگ رہا ہے کہ دنیا کو ایک نئے جنگی بحران میں مبتلا ء کر دیا جا ئے ۔ون مین پاور کے اعلا ن کے باوجو د ہنو ز امریکا چین کے ساتھ ساتھ رو س سے خائف ہے ، چین اور روس کی سرحدیں ایک جاء ہو نے کی بناء پر امریکی ڈر وخوف دوچند ہے ۔دی انٹر ریویو میں مائیکل ہڈسن کا ایک مضمون شائع ہو ا ہے ، جس میں وہ تحریر کر تے ہیں کہ امریکی سفارت کاروں کے لیے یو رپی خریداروںکو روکنے کا ایک واحد راستہ یہ ہے کہ روس کو فوجی ردعمل کی طر ف راغب کر دیا جائے اور پھر یہ دعویٰ کرے کہ اس ردعمل کا بدلہ لینا کسی بھی خالصتاًقومی اقتصادی مفاد سے کہیں زیا دہ ہے جیساکہ عقابی انڈر سیکرٹری امریکا برائے سیا سی امور ، وکٹوریہ نو لینڈ نے 27جنو ری کو اسٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ کی پریس بریفنگ میں وضاحت کی ۔
یہ ساری دنیا جا نتی ہے کہ پہلی ، دوسری اور سرد جنگو ں میں جرمنی اور روس کے درمیان تعلقات رہے ہیں ، چنانچہ اسی پس منظر میں امریکا کو گما ن ہے کہ پھریہ دونو طاقیتں متحد ہو کر اس کے لیے خطر ہ نہ بن جائیں ،2023میںترکی کا امریکا کے ساتھ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہو نے والے معاہدے کی بھی معیا د ختم ہو رہی ہے ۔ ترکی بھی دنو ں عالمی جنگوں میں جر منی کا اتحادی رہا ہے ۔چنا نچہ بھار ت اور امریکا سی پیک کے منصوبے کو جنو بی ایشیا ، افغانستان اور سنٹرل ایشیا میں اپنی برتری کے لیے خطرہ جا نتے ہیں بعینہہ جرمنی اور روس کی پائپ لائن کو امریکا یو رپ میں اپنی برتری کو خطرہ سمجھتا ہے ۔ اس پائپ لائن کے ذریعے جرمنی کے گیس کے صارفین کو سستی توانائی میسر ہو جا ئے گی ۔ روس کی جا نب سے پاکستان کو سستی گیس پائپ لائن کی پیش کش مو جو د ہے ، مگر بوجو ہ اس پیش کش کو آگے نہیں بڑھا یا جا رہا ہے ،ایسی رہی رکا وٹ سی پیک کے منصوبے میں امریکا کی طر ف سے بھی کھڑی نظر آتی ہے ۔
عالمی سیا ست میں تجا رت کو ایک کلید ی کر دار کی حیثیت حاصل ہے کیو ں کہ جب دو ملکو ں کے مابین تجا رت شروع ہو تی ہے تو تعلقات میں بھی مضبوطی وا ستحکام کے ساتھ ساتھ اعتما د بھی پختہ ہو تا ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت کئی عشروں سے پا کستان کے ساتھ تعلقات کا آغا ز تجا رت شرو ع کرنے کی بنیا د سے کرنے کی مساعی کر رہاہے ، وہ پا کستان اور بھارت کے مابین تما م اختلا فات اور تنازعا ت کو در کنا ر کر نے پر زور دیتا ہے اور تعلقات کے لیے ایک شرط پیش کر تا ہے کہ پہلے تجا رتی معاہد ہ کیا جائے بعد ازا ں دیگر معاملا ت کو دیکھ لیاجائے گا ۔اب تو پا کستان کی موجودہ حکومت نے بھارت کے ساتھ تجا رت کر نے کی رضا مندی ظاہر کر دی ہے گویا دونو ں ممالک کے مابین تعلقات کی تجدید تجا رت کے ذریعے کر نا مقصد پایا گیا ہے ۔اس کے کیا فوائد رہتے ہیں ا س کی مثال یہ ہے کہ جہا ں جرمنی اور روس جیسے دوست اور تجا رتی شراکت دار موجو د ہو ں وہا ں پھر نہ امریکی اڈوںکی ضرورت باقی رہتی ہے ، نہ امریکی ساختہ مہنگے ہتھیا روں اور میزائیل سسٹم کی ضرورت ہے ۔نہ نیٹو جیسے معاہدے کر نے کی مجبوری ہوتی ہے ۔دو ممالک کی ایسی بے لو ث دوستی اور تعلقات کو کھاتوں کو بینلیس کرنے کے امریکی ڈالر میںتوانائی کے سودے کر نے یا امریکی خزانے کو ذخیر ہ کر نے کی بھی مجبوری نہیں رہتی ،کیو ں کہ تجا رتی شراکت دارو ںکو اپنی کر نسی میں لین دین کی سہولت میسر ہو جا تی ہے ۔اگر تجا رتی سراکت دار اپنی کر نسی میں لین دین کریں تو اس سے ڈالر کی قدر گھٹ جاتی ہے اپنی کر نسی کو استحکا م بھی ملتا ہے اور سب ست بڑھ کر معاشی ترقی میں ڈرامائی انقلا ب بھی آتا ہے ۔چنا نچہ امریکا اس حقیقت کو جانتا ہے چنا نچہ جر منی روس گیس پائپ لائن ”نورڈ اسٹریم ” محض ایک پائپ لائن نہیںہے بلکہ خوشحالی ،اقتصادی ترقی کی ایک ایسی کھڑکی ہے جو امریکا کی اقتصادی ، فوجی، سیاسی برتری کو نکال باہر پھینکتی ہے بہرحال تما م دارومدا ر اب جرمنی کے فیصلے پر ہے کہ وہ اس بارے میں کیا قدم اٹھاتا ہے ۔اور امریکا پھینکے ہو ئے جال سے کس طرح خود کو بچاپاتا ہے یہ بھی یقین ہے کہ امریکا تیسری جنگ کی طر ف قدم نہیں بڑھا پائے گا کیوں کہ دنیا میں اس کی حیثیت افغان جنگ ہارنے کے بعد ویسی نہیں رہی جیسی افغانستان میںگھس بیٹھنے سے پہلے تھی ۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل ایران کشیدگی