پاکستان سے نبھا کا واحد آپشن

امریکہ کے نمائندہ برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس واشنگٹن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے پاس افغان مسئلے پر پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں اور ہمیں پاکستان پر تنقید کرکے اپنی توانائی کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔تھامس ویسٹ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی قیادت سے اچھے مفید اور دیانت دارانہ تعلقات رکھتے ہیں کیونکہ ان کے سسٹم میں افغانستان کے امور کی مہارت ہے۔گوکہ پاکستان نے امریکی تجاویز سے ہمیشہ اتفاق نہیں کیا جس کی وجہ سے امریکہ کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں اتحادی ملکوں نے دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے گزشتہ برس جنوری سے اگست تک قریبی رابطہ رکھا جس سے یہ معاہدہ ممکن ہوا۔ یہ افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے یہ ایک اہم مجلس تھی جس کے ماڈریٹر امریکہ کے سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرسٹیفن جے ہیڈلی تھے۔ تھامس ویسٹ کی رپورٹ ہونے والی گفتگو سے یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ افغان جنگ میں ایک صفحے پر نہیں رہے۔ پاکستان کبھی امریکہ کی بات مانتا بھی رہا اور اکثر انکاری بھی ہو جاتا رہا اور اس انکار سے امریکہ کے لئے مسائل پیدا ہوتے رہے گویاکہ قالین ان کے پیروں تلے کھینچتی رہی۔ دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ میں جم کر صرف ایک مرحلے پر ہم آہنگی رہی وہ تھا دوحہ معاہدہ۔ ا س معاہدے میں امریکہ کا مفاد یہ تھا کہ اس کی فوج کو واپسی کا ایک پرامن راستہ ملے جب کہ پاکستان کے لئے یہی کافی تھا کہ امریکہ اور نیٹو اس کی سرحدوں سے دور جا رہے تھے۔ اس قربت نے پاکستان کو زخموں سے چور چورکردیا تھا کیونکہ عالمی فوج کی موجودگی میں یہ علاقہ پاکستان کے خلاف ایک منظم دہشت گردی کا مرکز بن گیا تھا اور اس موجودگی کی آڑ میں بھارت ایک ڈی فیکٹو حکمران بن بیٹھا تھا۔ اس لئے امریکہ اور پاکستان اپنے اپنے مفادات کے لئے دوحہ معاہدہ چاہتے تھے اور اسی بات نے دونوں کو ایک مضبوط ڈور میں باندھے رکھا اور یوں یہ معاہدہ ہو کر رہ گیا۔ اگر امریکہ نے افغانستان میں پاکستان کو ایک مسئلہ سمجھنے کی بجائے مسئلے کا حل سمجھا ہوتا تو شاید افغان مسئلہ زیادہ بہتر انداز سے منطقی انجام تک پہنچا ہوتا۔ اس کے برعکس امریکہ نے افغانستان میں پاکستان کو بارہواں کھلاڑی یا مسائل کی جڑ قرار دے کر دیوار سے لگائے رکھا۔ پاکستان بھی ہمارے بغیر کرلو جو کرنا ہے کے انداز میں حالات کو روایتی دھارے میں بہتے تماشا دیکھتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان میں کوئی نقطہ اتصال نہ اُبھر سکا اور اس راہ میں سلالہ جیسے تباہ کن واقعات رونما ہوتے چلے گئے۔ اس بات کا اعتراف تھامس ویسٹ یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ پاکستان کے نظام میں افغان امور سے متعلق مہارت موجود ہے۔ امریکہ کو اب احساس ہوا کہ پاکستان کے ساتھ نباہ کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ امریکہ نے جن قوتوں پر افغانستان میں تکیہ کئے رہا ان میں کچھ اپنا بستر باندھ کر دوبئی سدھار گئے اور کچھ نے اپنے منصوبوں کی فائلیں بغل میں دبائے جہاز پکڑ کر دہلی کی اُڑانیں بھریں۔ امریکی نمائندے کی اس مرحلے پر کہی گئی بات پر پاکستان یہی کہہ سکتا ہے کہ
نہ کرو نباہ کی باتیں۔ تم کو اے مہربان دیکھ لیا
امریکہ کی طرف سے یہ احساس ِزیاں ایک ایسے مرحلے پر سامنے آرہا ہے جب پاکستان امریکہ کے اثر رسوخ سے آزاد ہوتا جا رہا ہے۔ صدر بائیڈن کی جمہوریت کانفرنس سے دور رہ کر اور اس کے مقابل چین کے سرمائی اولمپکس میں شریک ہو کر پاکستان نے اپنے مستقبل کے ارادے ظاہر کر دئیے۔ عمران خان بیجنگ میں ہی تھے کہ امریکہ سے ایک حیران کر دینے والا بیان سامنے آیا کہ پاکستان امریکہ کا سٹریٹجک شراکت دار ہے اور اس کے لئے امریکہ سے تعلقات کے لئے کسی دوسرے ملک سے تعلقات نہ رکھنے کی کوئی شرط نہیں۔ سٹریٹجک شراکت دار کا یہ اعزاز مانگنے میں پاکستان نے کئی دہائیاں صرف کریں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور سے پاکستان امریکی حکمرانوں کے منہ سے یہ جملہ اداکرنے کے لئے جتن کرتا رہا مگر امریکہ نے یہ اصطلاح اور رتبہ بلند صرف بھارت کے لئے مختص کئے رکھا۔ امریکہ نے ایک بار بھی بھولے سے پاکستان کے سٹریٹجک شراکت دار کے الفاظ استعمال نہیں کئے۔ یوں جب پاکستان اس لفظ اور تمغے کے لئے نوبل پیس پرائز کی طرح ترستا اور تڑپتا رہا مگرامریکہ نے یہ لفظ ادا نہ کیا اب جب کہ پاکستان امریکہ کے رویے سے مایوس ہو کر کسی اور سمیت جا رہا ہے تو اب امریکہ نے اسے سٹریٹجک شراکت دار کے ”اعزاز ” سے نواز دیا۔ چند دن بعد عمران خان روس کے اہم ترین دورے پر جا رہے ہیں تو امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار اپنی اسٹیبلشمنٹ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان پر تنقید کرکے اپنی توانائی ضائع کرنے کی بجائے اسے نبھاکرنا سیکھ لوکیونکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات برقر ار رکھنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
٭٭٭

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت