محوے حیرت ہرگز نہیں ہوں میں

ایک حالیہ تنازع پر جس نے ماحول گرما رکھا، بات کرتے ہیں لیکن اس سے قبل یہ عرض کردوں کے ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ چاول بوئیں اور فصل سرسوں کی اٹھائیں یا آم کے درخت پر سیب لگیں اور کھجور پر مالٹے ، چلیں وضاحت سے عرض کرتا ہوں ، میری ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو گالی دینا ایک فیشن ہے اور اس فیشن کو رواج دینے والوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کوئی اِن کے معاملات پر سوال نہ اٹھائے یہ کون لوگ ہیں ؟ وہی جو35 سال براہ راست اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور 35 برس کی حکومتوں کے ساتھ انہوں نے جو کیا سب کے سامنے ہے، آپ پوچھیں گے یہ تو70 برس ہوئے باقی کے چار برس ؟ میں عرض کرتا ہوں ایک برس جناح صاحب کا اور تین برس بھٹو صاحب کے کل دور میں سے نکال لیجئے بس یہ چار برس ایسے رہے جب ان کی دال نہیں گلی۔مخالفین کے لئے ذومعنی جملے حکمران جماعت کے قائدین استعمال کریں یا دیگر حضرات اس کی تحسین و حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر سیاسی و مذہبی شخصیات اور جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے خلاف جس اخلاق باختگی میں ہمہ وقت جتے رہتے ہیں وہ بھی کسی طرح درست نہیں ہے۔ بے اصولی اور بد زبانی کو رواج دینے والے سیاسی عمل، جمہوریت اور سماجی اقدارکی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ اس سے سیاسی اختلافات پہلے سے موجود نفرتوں میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ایک صاف ستھرے جمہوری نظام اور برداشت کے حوالے سے مثالی معاشرے کا خواب دیکھنے والوں کو موجودہ صورتحال میں خاموش بیٹھنے کی بجائے اصلاح احوال کے لئے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سبھی تھڑدلی کو پسند کرتے ہیں اگر اس کا مظاہرہ ہمارے نا پسندیدہ طبقے، جماعت یا شخص کے خلاف ہو لیکن اگر اس کی زد میں پسندیدہ شخصیت طبقہ یا جماعت آتے ہوں تو ہماری رائے مختلف ہی نہیں ہوتی بلکہ تب ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ان کی تو سیاسی تاریخ بد زبانیوں سے بھری پڑی ہے کاش اس لمحے ہم اپنی اپنی سیاسی تاریخ پر بھی ایک نگاہ ڈالنے کی جرات کر سکیں ، قبل ازیں وہ بلاول بھٹوکو بلاول صاحبہ کہہ چکے وفاقی وزیر مراد سعید قومی اسمبلی میں بلاول بنتِ زداری کہتے سنائی دیئے شیخ رشید کیا کہتے رہے اور اس پر وفاقی کابینہ میں میز بجا کر داد کس کس نے دی یہ بھی کوئی راز نہیں ہے، ستم یہ ہے کہ جب اس زبان دانی پر متوجہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے نون لیگ نے ماضی میں کیا کیا نہیں کہا ، ارے بھائی نون لیگ نے سود سمیت وصول بھی تو کیا پھر نون لیگ کی بد زبانی آپ کی زبان دانی کا جواز کیسے ہو گی؟کم از کم مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ موجودہ صورتحال کا ذمہ دار کوئی ایک فریق ہرگز نہیں ہے ہر کس و ناکس نے بساط کے مطابق اس بگاڑ میں حصہ ڈالا۔ منتخب اداروں، اخباری بیانات، جلسوں سے خطاب اور ٹی وی پروگراموں میں پچھلے چند برسوں سے ایک دوسرے کے لئے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اس کی مذمت نہ کرنا بھی ایک طرح سے تائید ہے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا بد زبانیوں کے اس مظاہرے کو ریٹنگ کے چکر میں مزید چسکے دار بنا کر نشر کرتا ہے اور بعد ازاں انہی چینلوں پر درس اخلاقیات شروع ہوجاتا ہے۔ اس امر پر بھی دو آراء نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیلوں نے غیرذمہ داری کے مظاہروں سے جو آگ لگائی ہے اب اس کی تپش سب محسوس کر رہے ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ تپش محسوس کرنے کے باوجود بگاڑ کو سدھارنے میں سنجیدگی دیکھائی نہیں دے رہی۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں، دونوں کے ہمدرد مخالفین کے لئے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں کی نجی محفلوں کے جو قصے عوام تک پہنچتے ہیں ان پر بھی افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے دنوں کے ایک ٹی وی پروگرام میں استعمال کی گئی ذومعنی زبان سے پیدا شدہ صورتحال کی مذمت کرنے کی بجائے بعض حکومت مخالف جماعتوں کے میڈیا سیلوں نے جلتی پر تیل ڈال کر آگ کو مزید بھڑکانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جن جماعتوں اور قائدین کے ذاتی میڈیا سیل وزیراعظم اوران کی اہلیہ اور بعض رفقاء کی کردار کشی میں صبح شام ایک کئے ہوئے ہیں وہ بھی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اخلاقیات کا بھاشن دینے میں مصروف ہیں۔ مناسب ہوگا کہ بد زبانیوں اور کردار کشی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ذرائع ابلاغ بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اس کے لئے بہترین طریقہ کار سیلف سنسر شپ کا رضاکارانہ مظاہرہ ہوگا۔ اخلاق باختگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ٹی وی پروگراموں میں بلایا جائے نہ اخبارات ان کے بیانات اور تقاریر شائع کریں۔ ہم حکومتی وزراء اور بالخصوص وزیر داخلہ سے بھی یہ عرض کریں گے کہ وہ بھی سیاسی مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے زبان کو قابو میں رکھا کریں خود عالی جناب وزیر اعظم بھی الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کیا کریں تو یہ بھی مناسب ہوگا ۔ بہرطور اب بھی وقت ہے کہ صورتحال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے خود احتسابی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی صفوں میں موجود ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گی جو سیاسی مخالفین کے لئے سوقیانیہ جملہ بازی سے باز نہیں آتے۔ ہماری دانست میں اب یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے جس سے جمہوری نظام اور سماجی اقدار کو ان بد زبان عناصر سے محفوظ رکھا جائے جو ماحول کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ بارِدیگر عرض ہے کہ اصلاح احوال کیلئے ہر شخص کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے بدزبانی منتخب اداروں میں ہو ٹی وی پروگراموں میں یا جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ اسی طرح قابلِ نفرت ہے جیسے کسی خاتون صحافی کے خلاف حباب والی طوائف کا ٹرینڈ چلانا قابل مذمت ہے یا اختلاف کرنے والے صحافی کو کھٹ سے بھارت کا ایجنٹ قرار دے دینا ، یا پھر سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کے لئے سوقیانہ جملے اچھالنا ، عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غلط غلط ہی ہوتا ہے حوصلہ کیجئے اور ہر غلط بات اور سوقیانہ جملے کی مذمت کیجئے سادہ لفظوں میں یہ کہ” عزت کرو اور عزت کر اور جیو اور جینے دو”

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟