پولیس کے تحفظ سے جڑا عوام کا تحفظ

پشاور کے تھانہ پھندو پر دو دستی بموں سے دھماکہ میں تین پولیس اہلکار زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، حالانکہ تین روز قبل دھماکوں کا الرٹ جاری کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کے خلاف دھمکی آمیز پوسٹر چسپاں کئے گئے تھے، ہم نے اداریہ کی سطور میں اس پر کھل کر بات بھی کی تھی کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ شرپسند عناصر کھلے عام پولیس کو دھمکی دینے لگے ہیں، پولیس کی سکیورٹی سے متعلق تجاویز بھی دی تھیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا اسی کا نتیجہ ہے کہ شرپسند عناصر نے آسان ہدف سمجھتے ہوئے پولیس سٹیشن کو نشانہ بنایا، وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں پولیس سٹیشن کے قریب حملہ آور کو دیکھا جا سکتا ہے جس نے چادر سے چہرے کو چھپایا ہوا ہے اس نے یکے بعد دیگرے دو بم پھینکے اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس حملے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے مگر شرپسند عناصر کی جانب سے دی جانے والی واضح دھمکی کے بعد پولیس سٹیشن اور اہلکاروں کے تحفظ کیلئے کسی قسم کا اقدام نہ اٹھانا غفلت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس حملے میں جانی نقصان بھی ہو سکتا تھا شرپسند عناصر کی دھمکی کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پولیس سٹیشن اور اہلکاروں کی سکیورٹی پر توجہ دی جاتی اور تھانوں کی چھت پر سکیورٹی اہلکار تعینات کردیئے جاتے تاکہ وہ مشکوک شخص کو دیکھ کر چوکنا ہو جاتے مگر ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے، دستی بم پھینکنے والے شخص کی اگرچہ تلاش جاری ہے تاہم حملہ آور کا پکڑا نہ جانا تشویش کا باعث ہے۔ اعلیٰ سطحی سکیورٹی حکام اور وزیر داخلہ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے تاکہ آئندہ ایسے ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
بجلی کے نرخ میں اضافہ سے گریز کی ضرورت
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں نیشنل پاور ریگولٹیری اتھارٹی(نیپرا) سے بجلی چھ روپے دس پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست کی ہے درخواست پر عمل ہونے کی صورت میں صارفین پر 60 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔امر واقعہ یہ ہے کہ نیپرا نے دسمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بھی بجلی کی قیمت میں 3روپے 9 پیسے فی یونٹ مہنگا کیا تھا، جس کا اعلان فروری کے پہلے ہفتے میں کیا گیا کہ دسمبر کے فیول ایڈ جسٹمنت چارجز فروری کے بلوں میں وصول کئے جائیں گے اس کے دو ماہ بعد ایک بار پھر ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے، پاکستان کے عوام اس بوجھ کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی بجلی مہنگی کرنے کی پابند ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی ادائیگی بروقت نہیں ہوں گی تو آئندہ اقساط کے اجرا میں حکومت کو دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ آخر کب تک وہ ہر خسارے کو عوام سے پورا کرتی رہے گی؟
صارفین پر اضافی بوجھ ڈالنے سے پہلے سوچنا چاہئے کہ عوام کی غالب اکثریت کی فی کس آمدن اور قوت خرید کیا ہے؟ عوام کی سکت کو مدنظر رکھ کر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے حکومت نے 50 یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین کو اضافے سے استثنیٰ دیا ہے، ہم سمجھتے ہیں 50 یونٹ بہت کم ہیں دو تین افراد پر مشتمل خاندان کا استعمال بھی اس سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ 100 یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین کو اضافے سے استثنیٰ دیا جائے، اس طرح طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت ایسا میکنزم بنایا جائے کہ جس سے صارفین مہنگی بجلی کے بوجھ سے بچ سکیں، کیونکہ آنے والا دور الیکٹرک مصنوعات کا ہے ایسے حالات میں جن ممالک میں توانائی کا بحران ہوگا یا جہاں پر بجلی مہنگی ہو گی تو وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ خطرناک امر یہ ہے کہ سردیوں میں بالعموم بجلی کا استعمال بہت کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بجلی بل کم ہوتا ہے جب گرمیوں میں بجلی کا استعمال بڑھ جائے گا تو لازمی طور پر بجلی کا بل بھی زیادہ آئے گا تو صارفین اس پر ردعمل بھی دیں گے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بجلی کے نرخوں کو نیچے لانے کیلئے گرمیوں سے پہلے منصوبہ بندی کرے اگر حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی تو اسے عوام کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
محکمہ صحت کی نئی پالیسی پر ڈاکٹرز کے تحفظات
محکمہ صحت کی نئی کنٹریکٹ پالیسی کو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف آئندہ ہفتہ سے صوبہ بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کو فکسڈ پے رولز پالیسی پر شدید تحفظات ہیں، حکومتی سطح پر ان تحفظات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے اسی لئے نوبت احتجاجی تحریک تک پہنچ گئی ہے۔
شعبہ صحت کی پرائیویٹائزیشن سے ڈاکٹر کو لگتا ہے کہ انہیں پہلے جیسی مراعات حاصل نہیں ہو سکیں گی اسی طرح حکومت کا مؤقف ہے کہ مستقل ملازمین کو ملنے والی مراعات سرکاری خزانے پر بوجھ بن چکی ہیں جنہیں ختم کر دینا ہی مسئلے کا مستقل حل ہے، یوں حکومت اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اپنے اپنے مؤقف کو درست جانتے ہوئے اس پر قائم ہیں اگر یہ صورتحال یونہی برقرار رہی تو ہسپتالوں کا نظام متاثر ہوگا جس کا نقصان مریضوں اور ان کے لواحقین کو اٹھانا ہوگا کیونکہ سرکاری ہسپتالوں سے مستفید ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اگر ڈاکٹرز ہڑتال پر چلے جاتے ہیں تو مریضوں کا کون پرسان حال ہوگا اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر دو جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا جائے اور باہمی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل ایران کشیدگی