قازقستان کے ہنگامے اور پاکستانی عوام

وسط ایشیا کا اہم ملک قازقستان ان دنوںشدید ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے ۔حالات زمانہ کے ستائے اور تنگ آئے ہوئے عوام کے ہجوم ریاست کی طاقت سے برسرپیکا رہیں۔قانون نافذ کرے والے اداروں اور برسرپیکار عوام دونوں طرف درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں یہاں تک کہ اس ہنگامہ آرائی کے باعث صدر قاسم جومارت نے نے وزیر اعظم نورسلطان نذربایوف کو برطرف کر دیا ۔معاملہ یہیں نہ رک سکا اور ہنگامے جا ری رہے اور نتیجے کے طور پر حکومت کو روس اور آرمینیا سے فوجی مدد طلب کرنا پڑی اور اب قازقستان میں سڑکوں پر روس سمیت غیر ملکی فوجیں گشت کر رہی ہیں ۔قازقستان میں اب یہ خدشات ظاہر ہونے لگے ہیں کہ ہنگاموں کے نام پر داخل ہونے والی غیر ملکی فوج اب غیر معینہ مدت کے لئے ہی مہمان بن کر نہ رہ جائے ۔یہ ہنگامے قازقستان میں تیل اور گیس کی پیدوار کے مرکز ژانا وژن شہر سے شروع ہوئے اور ان کی وجہ ملک میں ایل پی جی ،بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ تھا ۔ دنیا میں بہت سی حکومتوں کی اتھل پتھل میں مہنگائی کا کردار اہم رہا۔مغربی ملکوں میں بھی لوگ غیر معمولی مہنگائی پر سڑکوں پر آنے سے گریز نہیں کرتے ۔دنیا کے ان مناظر پر نظر ڈالیں تو پاکستان کے عوام صبر وشکر کے اعلیٰ ترین میعار پر فائز نظر آتے ہیں۔پاکستان کے ہر دور کے حکمرنوں کو پاکستانی عوام کا شکر گزار ہوناچاہئے کہ انہوںنے غیر ملکی اداروں سے ہونے والے معاہدوں کے باعث مہنگائی کے تازیانے تو برداشت کئے مگر سڑکوں اور گلیوں کا رخ کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔اس رویے کے انعام کے طور پر ہی حکمران اپنے عوام کو ریلیف کی صورت میں کچھ لوٹاتے تو بڑی بات تھی مگر یہ توقع عبث ہی رہی۔ پاکستان کے عوام نے تاریخ کے ہرد ور میں ایک انقلاب کے خواب آنکھوں میں سجائے اور دل میں بسائے رکھے ہیں ۔ایک ایسا مسیحا نفس آئے اورمروجہ نظام کی بساط اُلٹ کر رکھ دے ۔ناانصافیوں کا ازالہ کرے ۔ظلم وزیادتی کے کرداروں کو برسرعام سزا دے اور ایک نئے نظام کی بنا ڈال کر عوام کو خوش حال اور آسودہ زندگی گزار دے ۔دنیا میں کسی بھی کونے میں انقلاب کی لہریں اُٹھیں پاکستان کے عوام متجسس نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔ایسے کرداروں کو آئیڈیلائز کرتے ہیںجو سخت گیر منتظم کی پہچان رکھتے ہیں ۔ عراق کے سابق صدر صدام حسین کی طرف سے سڑکوں کی ناقص تعمیر کے مرتکب ٹھیکیداروں کو انہی سڑکوں پر سزا کے قصے ایک دور میں پاکستان کے چوپالوں اور قہوہ خانوں میں زباں زد خاص وعام ہوتے تھے ۔اسی طرح ایران کے انقلاب میں ماضی کے جرائم میں ملوث کرداروں کو پھانسیوں کی سزائیں بھی ہمارا رومان رہا ہے اور فطری طور پر امام خمینی جیساقائدانقلاب بھی ہماری قومی ضرور ت اور طلب رہا ہے۔انقلاب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اس راہ میں ایک قدم آگے بڑھانے سے گریزاں رہنا بھی عوام کی قومی شناخت اور خو بو رہی ہے ۔تاریخ کے ہرد ور کی مہنگائی ریکارڈ رہی ۔ہر دور کے بڑے بوڑھے لمحہ ٔ موجود کی مہنگائی کا اپنے بچپن اور جوانی سے موازنہ کرتے نظر آتے ہیں ۔بجلی مہنگی کرکے عوام پر بجلیاں ہر دور میں گرائی جاتی رہیں ۔آئی ایم ایف تو نجانے کب سے پاکستان کا بجٹ تیار کرتا چلا آرہا ہے اور ہر بجٹ میں عوام کے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں رہی ۔اشیائے ضرورت کی قیمتیں ایک بار بلند ہوئیں دوبارہ نیچے نہیں آسکیں ۔سبسڈی دے کر ماضی کی حکومتوں نے مہنگائی کا سارا بوجھ کسی حد تک عوام پر ڈالنے سے گریزکیا مگر اس بار آئی ایم ایف پاکستان کو قازقستان کے مناظر سے آشنا کرنے کا تہیہ کئے ہوئے تھامگر آئی ایم ایف اور حکومت کے اشتعال دلانے کے باوجود عوام نے صبر وشکر کے میعار کو ترک کرکے سڑکوں پر آنے سے گریز کیا۔یہاں تک کہ اپوزیشن نے بھی مہنگائی مارچ کا اعلان کیا مگر عوام کی لاتعلقی دیکھ کر یہ پتھر چوم کر چھوڑ دیا گیا اب اپوزیشن لانگ مارچ تو کرنے جا رہی ہے مگر اس کا نام مہنگائی مارچ نہیں ہوگا۔ پاکستانی عوام ا نقلاب اور مسیحا کے خواب آنکھوں میںسجائے حکمرانوں کو کوستے بھی چلے جاتے ہیں اور بجلی کابل جمع کرانے کے لئے قطاروں میں بھی کھڑے ہوتے ہیں۔کچھ یہی کوسنے اور طعنے دیتے ہوئے پٹرول پمپ پر کبھی اپنی جیب کو تو کبھی پٹرول پمپ کے میٹر کو دیکھتے ہیں۔آج بھی یہی حالات ہیں ۔بجلی گیس ،پٹرول کی قیمتو ں کو پر لگ گئے ہیں اور اچھے دنوں کی آمد ایک سراب ہی دکھائی دیتا ہے ۔اب عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے آثار ہیں تو لامحالہ پاکستان میں بھی تیل کی قیمت میں کمی ہوگی مگر آئی ایم ایف حکومت کو اس کمی کے اثرات عوام تک پہنچانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس بار بھی امکان موجود ہے کہ آئی ایم ایف کے دبائو پر حکومت ”اگر مگر” کا سہارا لے کر عوام کو ریلیف دینے سے گریز کرے گی ۔ایسا ہوا تو حکومت اپنے پیروں پر کلہاڑی چلائے گی ۔حکومت کو آئی ایم ایف کا دبائو جھٹک کر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں متوقع کمی کا فائدہ عوام کی طرف منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟