مرے کو ماریں شاہ مدار

مرے کو ماریں شاہ مدار یعنی غریب ہی کو ہر شخص ستاتاہے مصیبت پر مصیبت آتی ہے یہ کہاوت اس وقت کہی جاتی ہے جب کوئی شخص تکلیف یامصیبت میں گرفتار ہوجائے اس پرکوئی دوسری نئی مصیبت وارد ہوجائے ۔ چارسدہ سے سید عادل شاہ نے جوشکایت کی ہے وہ اس کا بعینہ مصداق ہے ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ سرکار کے کسی بھی محکمے میں خالی آسامیوں کے لئے درخواست کے ساتھ پانچ سوسے سات سو اور ہزار روپے تک جمع کرانا ہوتا ہے بیروزگارامیدوار پہلے ہی مشکل حالات سے گزر رہے ہوتے ہیں کسی ایک آسامی کے لئے بھی درخواست دینی نہیں پڑتی بلکہ ہر اشتہار میں کسی بھی اسامی کے لئے درخواست دینا مجبوری ہے ایسے میں مہینے میں اچھی خاصی رقم اسی میں نکل جاتی ہے مگر بعد میں یاتو سرے سے کال نہیں آتی یا پھر امیدوار ناکام ٹھہرتا ہے اور یوں یہ گھن چکر جاری و ساری رہتا ہے۔ خاص طور پر سرکاری جامعات میں تو اس حوالے سے اندھیر نگری چوپٹ راج کا معاملہ ہے درخواست دو فیسیں جمع کرائو پھر پتہ بھی نہیں چلتا کہ آگے کیا ہوا ایسا ہی کرنا ہے تو من پسند افراد کو خاموشی سے رکھ لیں خواہ مخواہ ایم فیل پی ایچ ڈی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کو دہوکہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے اب تو ایم فل بیچاروں کا یونیورسٹی میں لیکچرر لگنا مشکل ہی نہیں ناممکن بنا دیاگیا ہے ان کو بس اٹھارہ سال کی تعلیم کے بعد دیہاڑی داری کا کام دیا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی پھرملازمت کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں اب تو ایک اور فراڈ کا چرچا ہے ایک اور قاری ے باقاعدہ ایک اشتہار شیئر کیا ہے جس میں درجنوں آسامیاں ظاہر کی گئی ہیں وہ کسی ٹیسٹنگ ادارے کی جانب سے ہے شکایت کنندہ نے اس طرح کے اشتہارات کی اسامیوں کے لئے رقم جمع کرکے درخواستیں دیں لیکن کچھ پتہ نہ چلا اشتہار میں نے عزیز بھائی سے شیئر کی جنہوں نے دیکھ کر بتایا کہ یہ کسی اخبار میں شائع شدہ ا شتہار نہیں بلکہ کمپیوٹر پر بنا ہوا اشتہار ہے جو ممکنہ طور پر کسی ویب سائٹ یا پھر ویسے ہی سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا ہو عکسی اشتہار کو سمجھنا مشکل نہیں اس طرح کے جو بھی اشتہارات سوشل میڈیا یا کسی ویب سائٹ پر دیکھیں تو تصدیق کئے بغیر درخواستیں نہ دی جائیں اشتہار کی تصدیق اخبارات سے ہو سکتی ہے اگر کسی اخبار میں شائع ہونے کا تاثر دیاگیا ہو اور اگرایسا نہیں تو اشتہارکے کونے پر (INFP)یعنی انفارمیشن پشاور ‘ پی آئی ڈی یعنی پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ یا پھر کسی اشتہاری ایجنسی کا حوالہ ہوتا ہے اور اس کا باقاعدہ نمبر ہوتا ہے جامعات کے اشتہارات کا بھی باقاعدہ نمبر ہوتا ہے اس لئے اس نمبر کا حوالہ دے کر محولہ اداروں سے تصدیق کی جا سکتی ہے جعلی اشتہار چھاپ کر لوگوں کو لوٹنے والوں کے خلاف ایف آئی اے کو متحرک ہونا چاہئے متعلقہ اداروں کو لوگوں کو لوٹنے والوں کے حربوں سے خبردار اور ہوشیارکرنے کی ذمہ داری میں کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل تیار کرے اور اس کے انسداد کے لئے کوشش کی جائے ایک آسان حل یہ ہو سکتا ہے کہ سادہ لوح امیدوار بن کر اور ان جعلسازوں کونوکری ملنے کے عوض بھاری رقم کی پیشکش کرکے ان تک پہنچنا بھی مشکل نہیں کرنے کو کیا نہیں ہو سکتا اور طریقے بھی ہزار مگر کوئی تو ہو جسے احساس ہو اور وہ لوگوں کی تکالیف کا احساس کرے ۔ ان والدین پر کیا بیتی ہو گی جو اٹھارہ بیس سال سے فیس دے کر بچوں کو پڑھانے کے بعد ان سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہوں اورمحروم ملازمت اوربے وزگار اولاد کا دکھ دیکھنا پڑے ۔ ان نوجوانوں پر کیا گزرتی ہو گی کہ وہ جس مرحلے پر والدین کو سہارا دینے کا سوچ رہے تھے ابھی بھی اس قابل نہیں کہ والدین کا سہارا بن سکیں اور ا لٹا والدین ہی سے درخواستیں جمع کرانے کی فیسیں طلب کرتے رہیں۔ بیروزگاری کی شرح میں جس قدر اضافہ ہوتا جارہا ہے اور حصول روزگار جس قدرمشکل بنتا جارہا ہے وہ الگ مسئلہ ہے لیکن کم از کم بیروزگاروں سے الٹا رقم وصول تو نہ کی جائے حکومت اور سرکاری ادارے وجامعات جہاں لاکھوں ‘ کروڑوں کے اخراجات کرتی ہیں وہاں خالی اسامیوں پر امیدواروں سے مفت ٹیسٹ و انٹرویو ہی لینے کا بندوبست کریں دیکھا جائے تو یہ ضرورت یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہے اداروں کو عملے کی ضرورت ہوتی ہے تو امیدواروں کو ملازمت کی پھر کاہے کی فیس اور اگر اخراجات آئے بھی ہیں تو ادارہ برداشت کرے امیدواروں سے رقم لیکر اس کو رقم اکٹھی کرنے کا ذریعہ تو نہ بنایا جائے۔
ایک خاتون جو پشاور کے اچھے اور مناسب رہائشی علاقے کی مکین ہیں انہوںنے مہنگائی چیزوں کی قیمتیں بڑھنے اور مصنوعات کے سائز میں کمی کی شکایت کی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آمدنی اور کمانے والے کتنے ہیں ان کا جواب تھاکہ ہم دونوں میاں بیوی ملازمت کرتے ہیں اور صرف دو بچے ہیں جو کسی مہنگے سکول کے بھی طالب علم نہیں گھر بھی ذاتی ہے اور دیگر اخراجات بھی معتدل ہیں صرف چھوٹے بیٹے کے سکول کے لئے لنچ ذرا بہتر دیتی ہوں۔ میں خود بھی یہی محسوس کرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ جب معقول آمدنی کے حامل افراد کا اس مہنگائی میں گزارا مشکل ہو گیا ہے توباقی تو اور بھی مشکل میں ہوں گے ۔پھر خیال آتا ہے کہ پالنے والی ذات بہت مہربان ہے جبھی تو جیسے تیسے ہر کسی کا گزارہ چل جاتا ہے ایسا نہ ہوتا تو ان کے بندے نجانے کیسے جیتے اور جسم و جان کا رشتہ کیسے برقرار رکھتے حکومتی اقدامات نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی بس پالنے والا ہی اپنی مخلوق پر مہرباں ہے اور بس۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت