غریب شہر کہاں جائے داد خواہی کو

بکرے کی ماں کے خیر منانے پر سوال اٹھ رہے ہیں ‘مگر ”بکرے کی ماں” ہے کون’ یہ سوال اپنی جگہ بہرحال اہم ہے ‘ امریکا کے صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ روس جنگ کا بہانہ چاہتا ہے اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری میں مصروف ہے ‘ اس سارے قضے میں”بکرا” تو یوکرین ہے جس کے گرد روس نے مبینہ طور پر تین اطراف سے حملے کی تیاری شروع کردی ہے اور بے چارہ بکرا یعنی یوکرین کا محاصرہ کیا جا چکا ہے اور روز کوئی نہ کوئی خبر آجاتی ہے کہ حملہ اب ہوا کہ تب ہوا ۔ اس حوالے سے امریکا نے چند روز پہلے اپنے شہریوں اور کچھ دوسرے ملکوں نے بھی امریکی نقش قدم پرچلتے ہوئے اپنے اپنے شہریوں کو یوکرین سے نکل جانے کی ہدایات کرتے ہوئے خبردار کر دیا ہے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے ‘ بہرحال بات تو بکرے کی ماں کے حوالے سے چل رہی ہے ‘ اور یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ”محترمہ” ہیں کون؟امریکا کو تو ہم یہ منصب نہیں دے سکتے ‘ البتہ اسے ”ماموں” قرار دے سکتے ہیں کیونکہ وہ کم از کم ہماری یادداشت کے مطابق دنیا بھر کا ماموں یا تو بنا ہوا ہے یا پھر دنیا کے مختلف ملکوں کو ماموں بنا رہا ہے’ رہ گیا”بکرا” تو وہ یوکرین کی صورت میں روسی”بھیڑیئے” کے سوالوں سے پریشان اس کے سوالوں کا جواب تو دے رہا ہے مگر”پانی” کو گدلا کرنے سے انکار کے باوجود”بڑوں” سے بات کرنے کی تمیز نہ رکھنے کے بہانے ہی ممکن ہے”ہڑپ” کر لیا جائے ‘ اب یہ جو نیا تنازعہ کھڑا کر دیا گیا ہے ‘ عالمی برادری اسے تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار تو دے رہی ہے مگر دنیا کے”ماموں” امریکا سمیت کسی کو بھی یہ جرأت نہیں ہو رہی ہے کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر اقوام متحدہ لے جا کر سلامتی کونسل میں اس کے تصفیہ کا بندوبست کرے ‘ بے چارہ یوکرین معصوم بکرے کی مانند روسی خون آشام جبڑے میں کسی بھی وقت جکڑے جانے کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے کسی غیبی امداد کا منتظر ہے ‘
فقیہہ وقت بھی ‘ قاتل بھی ‘ شہریار بھی تم
غریب شہر کہاں جائے داد خواہی کو
اس معاملے کا پس منظر کیا ہے؟ اس پر روشنی ڈالے بناء اصل صورتحال سمجھ میں نہیں آسکتی ‘ اور مسئلہ نہ صرف سیاسی ہے بلکہ ا قتصادی بھی ‘ جبکہ اس کے ڈانڈے تجارت کے ساتھ ساتھ بڑی طاقتوں کے مابین سٹریٹجک مفادات کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں ‘ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے مغرب ہرحال میں روس اور بیلا روس پرپابندیاں عائد کرے گا اور اس کے لئے کوئی بھی من گھڑت وجہ بتائی جائے گی ‘ یوکرین پرحملہ ہوا تو روسی کمپنیوں کو ڈالر اور پائونڈ تک رسائی نہیں ملے گی ‘ ڈالر اور پائونڈ تک رسائی کے اس سوال پر غور کرتے ہوئے ممکنہ بڑی جنگ کے اصل خدشات کو ذہن میں رکھنا پڑے گا ‘ دراصل یوکرین نے نیٹو میں شمولیت کی درخواست دیدی ہے جبکہ ظاہر ہے اس کارروائی کے پیچھے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے’ یاد رہے کہ امریکا اور روس کا ایک پرانا معاہدہ ہے جس کے تحت وارسا پیکٹ میں شامل ممالک میں امریکا دخیل نہیں ہوتا ‘ اسی طرح نیٹو کے اندرونی معاملات میں روس دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ صدر کینڈی کے دور میں کیوبا کے اندر روسی میزائلوں کی تنصیب سے دونوں طاقتوں کے مابین شدید تنازعہ پیدا ہوا تھا اور امریکا نے جنگ چھیڑ دی تھی تو ایک امریکی جہاز بھی گرا دیا گیا تھا ‘ اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ روس نے یوکرین کو تین طرف سے گھیرتے ہوئے وہاں اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے اور یوکرین کے ساتھ روسی افواج کی جھڑپوں کے نتیجے میں دو یوکرینی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں ‘ اس صورتحال میں یوکرینی حکومت نے اپنے عوام کو شامل کرتے ہوئے انہیں جنگی تیاریوں کی ہدایات کر دی ہے ‘ جبکہ یوکرین کی فوج اور روسی حمایت یافتہ افراد میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
سر پہ تاج رکھا ہے ‘ بیڑیاں ہیں پائوں میں
جیسا کہ اوپر کی سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ اقتصادی اور تجارتی مفادات کا بھی معاملہ ہے ‘ اور وہ یوں کہ یورپی ممالک اپنے لئے روس سے حاصل کرتے ہیں جو ان کی ضرورت کا تقریباً35 فیصد بنتا ہے یہ گیس یوکرین کے راستے یورپ پہنچتی ہے ‘ اور اب ایک اور منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے جویوکرین ہی کے راستے سمندر کے اندر تعمیر کے مراحل طے کر رہا ہے ‘ ان منصوبوں سے راہداری کے حوالے سے یوکرین دو بیلین ‘ بیلاروس اور پولینڈ ڈیڑھ ڈیڑھ بلین ڈالرز سالانہ معاوضہ وصول کرتے ہیں جبکہ زیر تکمیل منصوبے پر عمل درآمد کے بعد ان ممالک کی آمدن میں مزید اضافہ ہوگا۔ یوں یہ ممالک تیزی سے معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے ‘ تاہم زیر سمندر منصوبے پر اگر معاشی پابندیاں عاید ہو گئیں جس کی جانب سے پیوٹن نے اشارہ بھی کر دیا ہے اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک طرح سے دھمکی بھی دیدی ہے تو یہ ممالک اقتصادی مسائل سے دو چار ہو سکتے ہیں اور روس و بیلا روس کی معاشی ترقی کی راہ کھوٹی ہو سکتی ہے ‘ پیوٹن نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے کہ مغربی ممالک کوئی بھی من گھڑت بہانہ بنا کر روس اور بیلا روس پر اقتصادی پابندیاں عاید کر دیں گے تو دراصل اس کے پیچھے ماضی میں عراق وغیرہ پرلگائے جانے والے وہ الزامات ہیں جن کا بہانہ بنا کر نہ صرف انہیں خطرناک اسلحے کے انبار جمع کرنے کے ”جرم” میں ان پرحملہ کیا گیا بلکہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی اس لئے روس بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے میدان میں آچکا ہے ‘ تاہم اگر اس مسئلے کا کوئی راستہ تلاش نہ کیا گیا تو دنیا ایک اور خطرناک جنگ کا سامنا کر سکتی ہے ۔
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جوپھیلتا ہی چلا جارہا ہے سینوں میں

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں