مشرقیات

ن میں سے بہت کعبے سے ہو کر آئے ہیں اور جو باقی ہیں ان کا پکا ارادہ ہے اللہ کے فضل وکرم سے بیت اللہ جانے کا جہاں وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ نئے گناہوں کی تیاری پکڑ لیں گے ،اس بات کا اندازہ ہمیں آسے پاسے کے ایں سعادت پانے والے معززین کو دیکھ کر ہوتا ہے جن میں اکثر کے نام کے ساتھ حاجی کا لاحقہ قومی شناختی کارڈ تک کا حصہ بن چکا ہے۔پس ثابت ہوا کہ ہمارے ہاں کے زائرین حج و عمرہ ماضی کے تمام گناہوں کی معافی مانگ لیتے ہیں تاہم وہ مستقبل میں گناہوں سے تائب ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ،وہ کیا کہا ہے اپنے چچا غالب نے ،
کعبے کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
تو جناب بے شرمی کے ایسے مظاہرے ہم نے پیسکو،ٹیسکو اور ڈسکو وغیرہ کے دفاتر میں دیکھے ہیں کہ یہاں بیٹھے حاجی صاحب بھی ہمیں پاجی نظر آئے۔بے شرمی کی حد دیکھیںکہ کوئی بھی کام ہو بغیر مٹھی گرم کئے سرانجام نہیں ہو پاتا شرما شرم والی اس ماحولیاتی آلودگی کے باعث یہاں کے ملازمین اپنے عزیز رشتہ دارو ںکے کام تک بغیر دام وصولی کے نہیں کرتے۔ اوپر سے جو بل ہمیںہر ماہ بلبلانے پر مجبور کرتے ہیں ان کی پشت پر بجلی چوری اور رشوت وغیرہ کے حوالے سے اخلاقی درس بھی صارفین کو پڑھایا جاتا ہے ،ہمیں نصیحت اور خود میاں فصیحت۔بے شرمی کے ساتھ یہ منافقت ہی ہے یہ سرکا ر کے اہلکار اچھی طرح جانتے ہیں کہ چوری کرتے بھی خود ہیں اور لوگوں کو بھی بجلی چوری کی تحریک پر ان ہی نے لگایا ہواہے ،یقین کریں چوری کی بجلی بیچنے کا دھندا کرنے والوں کے عزیز اسی محکمہ کی فورس کا حصہ ہوتے ہیں جب کبھی دکھاوے کے لیے چھاپے مارے جائیں تو محکمے میں بیٹھے یہی عزیز اپنے عزیزوں کو باخبر کر دیتے ہیں اور یوںسب ٹھیک ہے کی رپورٹ داخل دفتر کرکے نکے وڈے سارے افسر اپنے کام شام سے لگ جاتے ہیں۔ہمارے ایک دوست میٹر لگانے کے لئے دوڑ دھوپ کی تو انہیں کہا گیا اتنی دوڑ دھوپ کرنے کی کیا ضرورت ہے بے وقوف، پندرہ ہزار روپے ،ایک عدد شناختی کار ڈ اور اڑوس پڑوس کے کسی بھی گھر کا پرانا بل میرے ہاتھ رکھ اور آرام سے بیٹھ کے انتظار کر میری کال کا۔یہ کال دو چار دن بعد ہی آجاتی ہے ،بس اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ صارف مقررہ فیس سے تین گنا زیادہ ادائیگی کرے اور فکر ناٹ۔اور سنیں ان ہی حضرت کا میٹرجب تک نہیں لگا تھا، پیسکو کے ایک اہکار نے پانچ ہزار لے کر انہیں ڈائریکٹ کنڈا ڈالنے کا اجازت نامہ دے رکھاتھا ،گھر پر تعمیراتی کام کی وجہ سے وہ میٹر دو چار دن کا انتظار نہیں کر سکتے تھے۔اب آپ ہی کہیں کہ اس شرمناک ماحولیاتی آلودگی کے ہوتے ہوئے ہماری توبہ کیسے قبول ہو سکتی ہے ،ایک رند نے ایسی ہی توبہ کے بعد ساقی سے کہاتھا۔۔۔
شاید کہ ابھی پہنچی نہ ہوباب قبول تک
ساقی ذرا سی اور کہ توبہ سفر میں ہے

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟