بدامنی کے واقعات اور مذاکراتی عمل

جہاں ایک جانب قبائلی عمائدین کے جرگے کی وساطت سے ٹی ٹی پی کی قیادت سے منقطع شدہ مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا عمل جاری ہے وہاں دوسری جانب ملک میں اور خاص طور پر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے واقعات
کی روک تھام نہیں ہو سکی ہے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیو عملہ کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لئے جانے والی پولیس وین کو بم کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ ٹانک میں سابق امن کمیٹی کے سربراہ بم حملہ میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔دونوں وارداتیں ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے منصوبہ بند طریقے سے کی گئی ہیں جسے شدت پسندی کی بجائے ملک دشمن عناصر کی جانب سے تخریب کاری کی واردات قرار دیا جائے تو مناسب ہو گا۔بہرحال یہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل ہے یا تخریب کاری کی وارداتیں اس کے پس پردہ کون عناصر ہیں اس سے قطع نظر ٹی ٹی پی کی قیادت سے مذاکرات شروع کرنے کا عمل قابل توجہ ہے ۔حکام اور ٹی ٹی پی کی قیادت کے درمیان معاملات طے نہ ہونے کی بنیادی وجہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ اور اس سے انکار ہے ۔اس حوالے سے قبل ازیں بھی اختلافات رہے ہیںتحریک طالبان افغانستان اور دوحہ میں مذاکرات کرنے والے فریقوں کے درمیان بھی اسی معاملے پر ڈیڈ لاک سامنے آئے تھے جن کو بالاخر حل کر دیا گیا۔قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے عمومی طور پر دو قسم کی آراء کا اظہار ہوتا رہا ہے جس میں سے ایک ان کی رہائی کو دبائو میں آنے سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مخالفت ہے جبکہ دوسری جانب قیدیوں کی رہائی سے صورتحال میں بہتری اور استحکام کا حصول بڑی قیمت نہیںبہرحال ہر دو آراء کے حوالے سے دلائل موجود ہیں حکومت اگر ٹی ٹی پی سے دوبارہ مذاکرات اور مصالحت کا عمل شروع کر چکی ہے تو علاقائی روایات کے مطابق اس دوران کسی فریق کا دوسرے فریق کے خلاف کارروائی جرگہ اور پختون روایات کی خلاف ورزی ہے ۔جس کا اراکین جرگہ کو نوٹس لینا چاہئے بار بار مذاکرات اور بار بار نتائج کے حصول میں ناکامی نیک شگون نہیں اس ضمن میں حکومت کو کوئی واضح فیصلہ کرکے اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جبکہ دوسری جانب افغان حکومت کو بھی اپنی سرزمین کو پاکستان مخالف عناصر سے پاک کرنے کا کم از کم ان کو شرپسندی سے روکنے کی ذمہ داری پوری کرنے میں مزید تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے تاکہ جاری عمل نتیجہ خیزہونے میں مددگار ثابت ہواور خطے میںامن و استحکام کے ساتھ ساتھ دونوں ہمسایہ ممالک میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے ۔
قبرستان پر پولیس کا قبضہ چھڑانے کی ضرورت
حیات آباد میں قبرستان کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا قبرستان کے لئے موزوں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ برساتی نالے میں اپنے پیاروں کی تدفین کرنے لگے ہیں۔ عمائدین علاقہ کے مطابق قبرستان کی چالیس کنال زمین پر پولیس نے قبضہ کیا ہوا ہے اور باقی قبرستان بھر چکا ہے ان کے مطابق اس سلسلے میں متعلقہ ممبر صوبائی اسمبلی ‘ ممبر قومی اسمبلی ‘ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ‘ ڈی سی پشاور کو متعدد بار زبانی اور تحریری طور پرآگاہ کیا گیا کھلی کچہریوں میں اس کے لئے آواز اٹھائی گئی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ حیات آباد میں قبرستان پر اگرمافیا قابض ہوتی تو اس کے خلاف حکومت سے سخت کارروائی مطالبہ کرنا مناسب ہوتا لیکن یہاں مشکل امر یہ ہے کہ قبرستان کی چالیس کنال اراضی پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کا قبضہ ہے اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قبضہ مافیا کا کردار ادا کرنے لگے تو شنوائی کے لئے کس سے رجوع کیا جائے بار بار کے مطالبات اور احتجاج کے باوجود صوبائی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے سرد مہری اختیار کئے جانے کے بعد علاقہ مکینوں کے پاس عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں بہتر ہوگا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس مسئلے کا نوٹس لیں اور قبرستان پر پولیس کا ناجائز قبضہ ختم کروایا جائے ۔
کھلی کچہری ‘ مرغی کی وہی ایک ٹانگ
پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عوامی مسائل کے ضمن میں جو شکایات سامنے آئی ہیں اس میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی کم پریشر کا حل ضلعی انتظامیہ کی دسترس میں نہیں اس حوالے سے وہ حکومت اور متعلقہ اداروں کو مراسلہ ہی لکھ سکتے ہیں البتہ تجاوزات ‘ نقولات کی فراہمی ‘ فرداد ‘ ریونیو ریکارڈ میں درستگی رجسٹری اور ریونیو ریکارڈ کے حوالے سے جن مسائل سے انتظامیہ کو آگاہ کیا گیا ہے اگرچہ موقع پر ڈپٹی کمشنر کی جانب سے تحصیلداروں کو فوری کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے لیکن ایسا کرنا وقتی ضرورت اور معمول کے طور پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ بار بار سامنے آنے والے انہی مسائل کے مستقل حل کے لئے کوئی طریقہ کار وضع کیا جانا چاہئے تاکہ ہر بار کی کھلی کچہری میں یہی مسائل سامنے نہ آئیں۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں