نوتیرہ بیس نہ بتائیے

لگ رہا ہے کہ تحریک عد م اعتما د ٹھور بے ٹھور ہو کر رہ گئی ہے ، کیوں کہ وقت بھی برھتا جا رہا ہے اور ساتھی ہی حزب اختلا ف کے اجلا س بھی بڑھتے جارہے ہیں تحریک کے جو ڑ توڑ حمایتیوںکی تعداد مکمل ہوتی نہیں پارہی ہے ۔ مسئلہ اعداد وشمار کا نہیں ہے بلکہ حمایتیوں کے اعتما د کا مسئلہ لگ رہا ہے کہ کس طرح سے اکٹھے کیے جا نے والے نگینو ں سے یقین ہوجائے کہ ان میں کوئی نا سفتہ بہ نکل نہ آئے ، اگر ایسا ہو گیا تو ساری محنت دھر ی کی دھری رہ جائے گی ۔ اس وقت قومی اسمبلی کی تعداد کے مدنظر یہ کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کا میابی کے لیے کل دس ارکا ن کی ضرورت ہے تاہم مولانا فضل الرّحما ن ، آصف زرداری ، اور شہباز شریف جودعویٰ اراکین کر رہے ہیںاس کے مطا بق ان کے پا س کل مل ملا کر چالیس ہیر ے جوڑ رہے ہیں پھردیر کس بات کی ہے ۔ بسم اللہ ہو جا نا چاہیے تھی ۔علا وہ ازیں بھی ارکا ن کی گنتی کی جا رہی ہے ان میں جہا نگیر ترین گروپ کو شامل کر لیا جائے ۔ حکومت کے اتحادیوںکوبھی گن لیا جا ئے ۔ توپھر حزب اختلا ف کے پا س تو کچھ بچتا ہی نہیں ہے ، ذرائع ابلا غ پر جواعداد وشما ر پیش ہورہے ہیں محسوس کیا جا رہا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے ذرائع سے ہورہا ہے ۔ذرائع ابلا غ سے یہ بھی انداز ہ ہو رہاہے کہ حکومت کوعدم اعتمادسے بے فکری ہے ۔ جس طرح حزب اختلا ف کے رہنماؤں کی ایک ہی دن میں ملاقاتوں پر ملاقاتیں ہو رہی ہیں ایسی کوئی شنید حکومت کی طرف سے نہیں آرہی ہیں ۔ البتہ یہ سنا گیاتھاکہ عمر ان خان کراچی میںایم کیو ایم کے مرکز زیر و نائن کا دورہ کریں گے ، شایدا ن کا یہ دور ہ اپنی ایک اتحادی جماعت کو عدم اعتما د کی تحریک سے دور رکھنے کا مقصد ہو ۔خیر سے اب الطا ف حسین برطانوی عدالت سے دودھ کے نہا ئے ہوئے ہو گئے ہیں ۔کیوں کہ عدالت نے ان پر لگائے گئے غداری جیسے الزاما ت سے بری کر دیا ہے ۔ یا د رہے کہ عمر ان خان ایّام مرور میں الطاف حسین اب الطاف بھائی کے خلا ف ایک بھاری بھر کم بستہ لے کرگئے تھے جس میں پاکستان سے ان کی دشمنی و غداری کے ثبوت فراہم کیے گئے تھے ۔آج جو صوبہ پنجاب کے گورنر ہیں لندن میںان کے حوالے کیے تھے تاکہ برطانیہ کی عدالت میں ان کے خلا ف مقدمہ چلا یا جا سکے ۔اب الطاف عدالت سے دھل کر اپنی تھا ن پر براجمان ہوگئے ہیں اور ان کی پارٹی کا مرکز جو زیرو نائن کے نا م سے منسوب ہے بے قفل ہو گیا ہے ۔ایسے میںجا نا تو بنتا ہے ۔ اب کی بغل میں الطا ف حسین کے خلا ف کوئی بستہ عناد نہیں بلکہ اخوت ومودّت کا گلدستہ ہو گا ۔نیر رنگ سیا ست اسی کو کہتے ہیںکل تک جس کو پنجا ب کا سب سے بڑاڈاکو کہا جا تا تھااب وہی پارسائی واخوت کا پیکر ہے ۔ اب یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ حزب اختلا ف اندر سے گھبرائی ہوئی ہے ۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر فواد چودھری کا یہ بیان سامنے لا یا جا رہا ہے جس میں مو صوف نے فرمایا ہے کہ حکومتی ارکان کوخریدنے کی کو شش کی جارہی ہے اور اب تک تین ارکا ن کو پیش کش کی گئی ہے ان ارکان میں ایک خاتون رکن اور ایک اقلیتی رکن بھی شامل ہیں اگر وزیر مو صوف نے انکشافف کیا ہے تو اس میں کہا ں گھبراہٹ ٹپک پڑی ، ایسا بیان تومسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے بھی شرح وبسط کیا تھا ۔گویا حکومت بھی بڑی حکمت عملی سے کا م لے رہی ہے ، اسلا می وزراء خارجہ کی کا نفرنس کے لیے قومی اسمبلی کے ہا ل کی تزئین و آرائش کا م شروع ہو چکا ہے جو پانچ ما رچ تک مکمل کر لیا جا ئے گا ۔ بعض کا گما ن ہے کہ اس حکومتی مصروفیت کی بناء پر تحریک عد م اعتما د پا نچ ما رچ سے پہلے لا نا ممکن نہ ہو گا ۔ ایسا بھی ہر گز نہیں ہے۔ تحریک عدم اعتما د کے قواعد کے مطا بق جب یہ تحریک پیش ہوجائے تو قومی اسمبلی کا اجلا س تین دن سے پہلے تحریک پر بحث نہیںکرسکتا اور سات دن سے پہلے بحث ہو نا لازمی ہے ۔ اگر قومی اسمبلی کا ہال ان ایام میں دستیاب نہیں ہے توپھر بھی اجلا س ہو سکتا ہے ۔اسپیکر کسی بھی مقام کو اجلا س کے لیے منتخب کرنے کا مجا ز ہے اور اس کی نظیر موجو د ہے یہ لازمی نہیں ہے کہ پارلیما ن کا اجلا س پارلیما ن کے ہا ل میں ہی ہو ۔جب تحریک عد م اعتما د قومی اسمبلی کے سیکر ٹریٹ میں جمع کرادی جائے گی تو اسپیکر پر لا زمی بنتا ہے کہ وہ تین دن کے وقفے سے اسمبلی کا اجلا س طلب کرے اوراس میںسات دن سے زیادہ کی تاخیر نہ کر ے ۔چنا نچہ جو ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ اپریل سے پہلے تحریک لاناممکن نہیںہے وہ اس سے غافل ہیں ، اسلا می وزرا ء خارجہ کی کا نفر نس غالباً23ما رچ کوہے جو بلا کسی حیل و حجت کے منعقد ہو سکتی ہے لیکن اصل مسئلہ ایک اور بھی ہے کہ اپوزیشن اس وقت پھنسی ہوئی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتما د کا میا ب ہوگئی تو اس کے بعد جو صورت حال اپوزیشن کے لیے زیا د ہ پیچیدہ ہو جائے گی کیو ں کہ اگر اسمبلی ٹو ٹ کر نئے انتخابا ت ہوئے تو اپو ز یشن اتحا د کی جما عتیں ہی ایک دوسرے کے مقابل ہوں گی اگر تحریک کی کامیا بی کے بعد اپو زیشن کو حکومت تشکیل دیناپڑ جائے تو ظاہر ہے کہ ہر پا رٹی کے اپنی سیا سی اغراض ہوتے ہیںاور پھر سیاسی اغراض کا ٹکر اؤ بھی لازمی ہے ۔اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے اس میں سامنے یہ ہی آیا ہے کہ شہبازشریف کی وزارت اعظمیٰ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے تاہم پنجا ب کا معاملہ پھنساہو ا ہے ۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت