زبان ‘ مزاح اور تضحیک

کسی زمانے میں”سرداروں” کے حوالے سے لطائف کی بھر مار ہوتی تھی کیونکہ ایسی کسی پابندی کا اطلاق بھی ان لطائف پر نہیں ہوتا تھا ‘ مگر پھر یوں ہوا کہ ”سردار کمیونٹی” کی جانب سے اس تضحیک پر احتجاج کے بعد لطیفوں کی دنیا میں تبدیلی پیدا ہونا لازمی امر ٹھہرا ‘ اور لطیفے گھڑنے والوں نے اپنے استہزائیہ تیروں کا رخ پختونوں کی جانب پھیر دیا ۔ پختونوں نے اپنی غربت کی وجہ سے بڑے شہروں خصوصاً کراچی کا رخ کیا تووہاں ان کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے بڑے بڑے بنگلوں میں چوکیدار سے زیادہ کی ملازمت کیا ملنی تھی کہ تعلیم تو کم کم لوگوں کے پاس ہوتی تھی ‘ اس دور میں پختونوں کی خوب تعریفیں کی جاتی تھیں ‘ جبکہ ”اردو” میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں وہاں انہیں جن مشکلات کا سامنا رہتا تھا اور خصوصاً دو چشمی والے الفاظ کا استعمال ان کے لئے آسان نہ ہونے کی وجہ سے اور ساتھ ہی تذکیر و تانیث پر قابو نہ رھنے کی بناء پر ان سے زبان کی غلطیوں سے اردو دان طبقے کے نزدیک ان کا مذاق اڑانے میں آسانی ہوتی تھی۔ پھر پختونوں نے طویل محنت کے بعد کراچی جیسے بڑے شہر میں اپنی حیثیت منوالی تھی ‘ اور ترقی کرتے کرتے جس طرح دوسرے طبقات سیاسی طور پر مضبوط ہو رہے تھے اسی طرح پختونوں نے بھی اتحاد و اتفاق سے اپنے لئے جگہ بنا لی تھی ‘ اور زبان کے حوالے سے اپنی تضحیک کو بہت حد تک روک لیا تھا ‘ مگر لطیفے گھڑنے والا یہ سلسلہ کراچی سے منتقل ہو کر لاہور جیسے بڑے ثقافتی مرکز میں ڈیرے جمانے لگا ‘ اہل پنجاب میں چونکہ حسن مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور وہاں ”بھانڈ کلچر” بڑی حد تک سرایت کر چکا ہے ‘ جو عام زندگی یعنی شادی بیاہ وغیرہ کا بھی حصہ ہے ‘ طنزیہ جملے بازی اتنی عام ہے کہ اب یہ نہ صرف ٹی وی شوز بلکہ سٹیج ڈراموں میں مختلف کردار ایک دوسرے پر پھبتیاں کستے دکھائی دیتے ہیں اور بڑے گھرانوں کی شادیوں کے موقع پر بلا تحضیص جو جملے بازی کی جاتی ہے اور کسی کو نہیں بخشا جاتا وہ قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا ‘ پختونوں کے لب و لہجے کا مذاق اڑانا اب
کراچی سے منتقل ہو کر لاہور کے سٹیج ڈراموں اور مختلف ٹی وی شوز کا حصہ بن چکا ہے ‘ ایک ٹی وی چینل کے اسی قسم کے مزاحیہ پروگرام میں تو عرصہ تک ایک پختون کردار کو ہمارے ہاں کے قبائلی علاقوں میں رائج لباس میں سائیکل ہاتھ میں تھما کر سٹیج پر لایا جاتا تھا ‘ سائیکل کو بھی رنگ برنگی کاغذوں سے جس طرح مزین کیا جاتا ‘ وہ بھی اگرچہ مخصوص طور پر کچھ لوگ سجاتے ہیں مگر ہر شخص ایسا نہیں کرتا ‘ اسی طرح متعلقہ کردار کے پاس نسوار کی ڈبیا بھی ہوتی تھی ‘ حالانکہ ہر پختون نسوار استعمال نہیں کرتا ‘ اس بھانڈ نما شخص کے ذریعے پختونوں کی تضحیک کا سامان کیا جاتا ‘ جس پر راقم نے مختلف اوقات میں لاتعداد کالم لکھ کر احتجاج کیا’ یوں بالآخر متعلقہ شو سے اس کردار کو ہٹا دیا گیا’ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے کئی صوبائی وزراء ‘اراکین پارلیمنٹ کو بطور مہمان اس شو میں شرکت کی دعوت دی گئی مگر کسی کوبھی پختونوں کا مذاق اڑانے پر احتجاج کی توفق نہیں ہوئی ‘ خصوصاً زبان کے حوالے سے جس طرح اس کردار کے ذریعے مذاق اڑایا جاتا ‘ کوئی بھی اسے روکنے کی کوشش کرتا دکھائی نہ دیا ‘ حالانکہ پختونوں سے ان کی قدرتی لہجے کی وجہ سے گنگا جمنی اردو بولنے کی توقع نہیں کی جا سکتی ‘ بلکہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے دوسرے علاقوںکی نسبت پختون انگریزی اور عربی متعلقہ زبانوں کے اصل بولنے والوں کے سوفیصد نہ بھی ہو تو 98فیصد قریب قریب درست لہجے میں ادائیگی کر سکتے ہیں ‘ اور جہاں تک اہل پنجاب کا تعلق ہے تو ان سے یہ دونوں زبانیں درست طور پر ادا نہیں ہوتیں۔خیر یہ ایک الگ بحث ہے جس پر کسی اور کالم میں تفصیل سے بحث کی جا سکتی ہے ‘ البتہ زباندانی کے حوالے سے کسی خاص قوم یا نسل کا مذاق اڑانا ایک الگ مسئلہ ہے ‘ جس کے حوالے سے اردو کے کئی اساتذہ نے خوبصورت اشعار بھی کہے یں ‘ داغ دہلوی کا ایک شعر ہے
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
استاد داغ کے اس دعوے میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ جو لوگ اردو زباں کے حوالے سے پختونوں کا مذاق اڑاتے ہیں ‘ خود ان کا حال یہ ہے کہ کئی الفاظ غلط بولتے ہیں یوں گویا دوسروں پر اعتراض کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو انگلی وہ دوسروں کی جانب اٹھا کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں ‘ باقی کی تین انگلیاں خود ان کی جانب ہوتی ہیں ‘ مثلاً اہل پنجاب لفظ سکول اور اسی نوعیت کے دیگر انگریزی الفاظ کا تلفظ درست طور پر ادا نہیں کر سکتے ‘ یعنی School کو یا تو حرص S(ایس) پر زبر لگا کر یا پھر اس سے پہلے زیر لگا کر ”اسکول” بولیں گے ‘ ان کی کارستانی اب یہ ہو گئی ہے کہ بعض شعرائے کرام اپنے اشعار میں پختون ثقافت ‘ زبان اور نسل کی توہین کرنے تک سے باز نہیں آتے ‘ گزشتہ برس سرکاری ٹی وی یعنی پی ٹی وی کے ایک مشاعرے میں کھلم کھلا جس طرح پختونوں کی بھداڑائی گئی اس پر خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں شدید احتجاج کیا گیا ‘ جس کے بعد اگرچہ متعلقہ شاعر آئندہ مشاعروں میں شرکت پر پابندی لگائی گئی اور متعلقہ پروڈیوسر کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی ‘ مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ معلوم نہیں ہو سکا ‘ عین ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد اسے صرف سرزنش کرکے ملازمت پر بحال کر دیا گیا ہو ‘ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ٹی وی چینلز پر کسی بھی لسانی گروہ’ قوم یا برادری کے بارے میں تضحیک آمیز رویئے پر پابندی لگنی چاہئے اور دل آزاری پر مبنی مناظر ‘ مکالمے یا حرکات و سکنات کے خلاف قانون سازی کرنی چاہئے اس قسم کی حرکتوں سے باہمی منافرت پھیلتی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف منفی جذبات ابھرنے سے معاشرہ تقسیم ہوتا ہے ۔ بقول سلیم کوثر
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں

مزید پڑھیں:  اسرائیل ایران کشیدگی