”چراغ بجھتے جارہے ہیں سلسلہ وار”

حیدر جاویدسید
جس معاشرے میں اجلی دانش کی روشنی ویسے ہی کم ہو اس میں ایک روشن چراغ کے بجھنے سے کیا صورتحال ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ بدھ کی صبح(مہدی بھائی)ڈاکٹر پروفیسر مہدی حسن کے سانحہ ارتحال کی خبر نے ڈس لیا۔ ہمارے چار اور روزانہ کئی پہچان والے اور اجنبی زندگی کا سفر طے کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ موت کا ذائقہ چکھنے والے ہر شخص کے خاندان اور عزیز و اقارب ہی سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا کتنا نقصان ہوا بہت کہ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سانحہ ارتحال کی بدولت پورا سماج غم زدہ ہو اور ہر شخص اسے اپنا ذاتی نقصان قرار دے ‘ معلم ‘ محقق ‘تاریخ دان ‘ کالم نویس ترقی پسند دانشور ڈاکٹر پروفیسر مہدی حسن بھی ان زندہ فکر انسانوں میں سے تھے جن کے سانحہ ارتحال کو سماجی علمی اور تہذیبی نقصان قرار دیا جارہا ہے ۔ ایک تعلق خاطر کی بدولت وہ ہمیشہ ہمارے لئے مہدی بھائی ہی رہے ان سے ہر ملاقات میں گھٹنے چھو کر ملنے میں ایک اطمینان ہوتا تھا کہ صاحب علم کے حضور جھکے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں صاحب علم تھے وسیع مطالعہ روشن خیال دلیل کی قوت سے اپنا موقف بلا خوف پیش کرنے والے خواجہ مہدی حسن کا خاندان بٹوارے کے ہنگام میں پانی پت سے ہجرت کرکے نئی مملکت میں آن آباد ہوا تھا۔ وہ27جون1937 کو پانی پت میں پیدا ہوئے نوسال کی عمر میں خاندان کے ہمراہ بٹوارے کی خون آلود ہجرت کا سفر طے کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں لگ بھگ تیس برس تدریس کے فرائض ادا کئے بعد ازاں لاہور یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے بھی منسلک رہے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ متاثرین بھی کم نہیں اپنی فکر پر زندگی بھر ثابت قدمی سے ڈٹے رہنے والے ڈاکٹر پروفیسر مہدی حسن کا یہی دوسطری تعارف نہیں ہے اپنی ذات میں مکمل دانش کدہ تھے وہ گھٹن حبس اوررجعت پسندی سے اٹے اس ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا تھے ، وہ ان برسوں میں پنجاب یونیورسٹی میں اپنی فکر کے ساتھ موجود رہے جب رجعت پسندی آسمان کو چھو رہی تھی یہ ان کی ذات اور دانش کا کمال ہی تھا کہ یونیورسٹی میں رجعت پسندی کے پھریرے لہرانے والے بھی انہیں دیکھ کر احترام سے ایک طرف کھڑے ہو جاتے کہ استاد محترم گزر جائیں۔ انہوں نے کوئی چار دہائیوں تک اردو اور انگریزی اخبارات میں کالم نگاری بھی کی بدھ کو طویل علالت کے بعد 85 برس کا سفر حیات طے کرکے ہمارے درمیان سے اٹھ گئے ۔ 2010 میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سربراہ منتخب ہوئے تھے یہ سربراہی ان کی ذات کے لئے نہیں بلکہ ایچ آر سی کے لئے اعزاز تھا کہ ڈاکٹر مہدی حسن مسند صدارت پر رونق افروز ہوئے ۔ اپنی پوری زندگی میں انہوں نے جو درست سمجھا اس پر کھل کر بات کی کسی کو یاد ہو تو کچھ برس قبل خلافتِ الہیہ کی داعی تنظیم اسلامی نے انہیں اپنے ایک اجتماع میں خطاب کی دعوت دی حلقہ احباب کے زیادہ تر افراد کا خیال تھا کہ تنظیم اسلامی کے سخت گیر قدامت پسند ان کی باتوں سے بھڑک اٹھیں گے مگر ہوا اس کے برعکس سخت گیر قدامت پسندوں نے نہ صرف ان کا خطاب پرسکون انداز میں سنا بلکہ داد دینے میں بھی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے ان کا کہنا تھا موقع نزاکت نہیں فرد کی فہم کی اہمیت ہے ۔ موقع کی نزاکت دیکھ کر بات کرنے والے مصلحت پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور مصلحت پسندی پورے سچ کی دشمن ہے علمی حلقوں میں انہوں نے اپنی ذات کو محنت سے منوایا محض علمی حلقوں میں ہی نہیں زندگی کے دیگر طبقات میں بھی اپنے لئے احترام ہی احترام پایا انہوں نے ایک معلم کے طور پر اپنے شاگردوں کو گائیڈ بکوں کی بجائے تدریس کے حقیقی طریقہ کار کے مطابق نورِ علم سے منور کیا ، وہ سوال سے کبھی نہیں گھبرائے ہمیشہ ہر سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دیا، اور کیا مجال کبھی بے دلیل بات کی ہو۔ یہی ان کی زندگی اور فہم کا اصل حسن تھا ویسے تو یہ خواجگان پانی پت کا سارا خانوادہ اپنی مثال آپ تھا اور ہے ، آگے بڑھتے اور تحقیق کی لگن سے مالا مال روشن خیال انسان دوست مگر ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنی فہم اور دانش سے جو دنیا بسائی وہ ایک الگ ہی دنیا رہی ہمیشہ ، خوش لباس ‘ دھیمے مزاج سے دلیل کے ساتھ بات کرنے والے وہ مخالفین کی تحقیر کرنے کی بجائے ان کا احترام سے ذکر کرتے ۔ اختلاف رائے کے وقت بھی ایک خاص مسکراہٹ ان کے چہرے پر برقرار رہتی تدریس کے شعبے سے بطور معلم وہ نصف صدی تک منسلک رہے اس عرصہ میں علم و تحقیق کی دنیا سے مربوط تعلق اور انسانی حقوق ‘ جمہوریت دستور کی بالادستی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا استحصال کی ہر قسم کے ناقد ہی نہیں تھے بلکہ اس جراتِ رندانہ سے بھی مالا مال تھے کہ جبر و استبداد کے پرآشوب دور میں حق گوئی سے پیچھے نہ ہٹتے ‘ تیسرے فوجی آمر جنرل ضیا تھے یا کمرشل لبرل چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف انہوں نے دونوں کے ادوار میں کلمہ حق ادا کرنے میں رتی برابر تامل نہیں کیا جس بات کو درست سمجھا نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر کہہ ڈالی۔ انسان دوست عملیت پسندی اور فکری استقامت کے حوالے سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے یاد کیوں نہ رکھے جائیں انہوں نے دائیں اوربائیں بازو کے دوسرے انگنت دانشوروں کی طرح خود کومنڈی کا مال بننے سے آخری سانس تک محفوظ رکھا۔ ان کا سانحہ ارتحال اس سماج کا اجتماعی نقصان ہے وہ ان چند اہل دانش میں سے تھے جن کی بات سننے کے لئے ان کے نظریاتی مخالف بھی ان کی مجلس میں شریک ہونے کو سعادت سمجھتے تھے ۔ ان کی ذات میں خیر کے سارے پہلو تھے ہمیشہ کہتے تھے اس ملک کو قائم رکھنا ہے تو عقیدت اور شناخت کے مصنوعی بتوں کو توڑنا ہوگا جھوٹی تاریخ اور ادھار پر لئے گئے ہیروز کے قصے آگہی کے دشمن ہیں وہ تاریخ پر مکالمے کے قائل تھے اسے تقدس مآب سمجھنے سے ساری عمر انکاری رہے ان کا خیال تھا تاریخ ایک مضمون ہے مگر ہمارے یہاں بدقسمتی سے اسے الہام سمجھ لیاگیا ہے ۔ برسوں قبل لاہور پریس کلب میں جمی ایک مجلس کے دوران ان سے سوال ہوا بٹوارے نے برصغیر کے مسلمانوں کو کیا دیا؟ رسان سے بولے”پہلے یہ بتا دیجئے برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے سماج کو کیا دیا ہے کہ جس پر ہم اور آپ فخر کر سکیں”۔ وہ ایسے ہی تھے اور ایسے ہی ساری حیاتی رہے ۔ ان کے خیال میں ہر دور کے مسلم سماج کا بنیادی المیہ یہ رہا ہے کہ اپنے عہد کو مثالی بنانے کی بجائے عبادات کی تجارت کو مقصد
(بقیہ صفحہ 7پر)

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین