دل کا معاملہ ہے، وزیرصحت صاحب!

گو کہ گزشتہ کالم کے بعد قارئین کا اصرار رہا کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے حوالہ سے مزید لکھا جائے۔ اب تو وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس کے بعد طلب مزید بڑھ جاتی ہے لیکن روزنامہ مشرق کے ان صفحات پر میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ عام آدمی کے مسائل پر بات کی جائے۔ ہمارے قرب وجوار میں کیا ہو رہا ہے اس پر بات ہونی چاہئے کیونکہ ہماری نظر میں ہمارے ان مسائل پر بات کرنا ضروری ہے۔ اسلئے سیاسی ٹھرک کیلئے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ضرورت سے زیادہ پہلے سے ہی استعمال ہو رہا ہے۔ اب آتے ہیں مقامی مسئلہ کی طرف اور وہ براہ راست عوامی زندگی سے متعلق ہے۔ ہر دور میں بحیثیت رپورٹر میں نے اپنا فرض سمجھا کہ حکمران جماعت پر زور ڈالوں کہ وہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پر توجہ دیں۔ یہ صوبے کا سب سے بڑا قدیم ہسپتال ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے جو کہ آثار قدیمہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ عدالت نے تو اس صورتحال پر اپنے ریمارکس میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ ہسپتال ویران ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے جلد ہی لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو بھی یونیسکو کی حفاظت میں دینے کی باتیں ہونے لگیں۔ لگ بھگ ہر حکومت کے ماہرین صحت کا یہ ماننا تھا کہ لیڈی ریڈنگ پر بوجھ کم کرنے کیلئے اضلاع کی سطح پر ہسپتالوں کو مضبوط کیا جائے۔ پھر پختونخوا میں تحریک انصاف کی انقلابی حکومت آئی۔ ہم جیسے قلم کے مزدوروں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ نیا پختونخوا بن رہا ہے۔ ایک لمحہ کو تو ایسے لگا جیسے اس سے قبل ہم غاروں میں رہتے تھے اور جنگل کے مختلف جڑی بوٹیوں سے آشنا طبیب جڑی بوٹیوں سے ہمارا علاج کرتے تھے۔ اس وقت بھی لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور پر شوز کئے تو اس وقت کے وزیر صحت شہرام ترکئی اور وزیر اعلی پرویزخٹک تو پیچھے ہی پڑ گئے۔ بہرحال کہا گیا کہ ایم ٹی آئی کے نفاذ کے بعد انقلاب یقینی ہے۔ ہر کچھ عرصہ بعد بیان آتا ہے کہ ایم ٹی آئی کی وجہ سے ہسپتال اپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے ہیں۔ لیکن کوئی بھی شہری محکمہ صحت کا بجٹ اٹھا کر دیکھے اور کسی بھی ہسپتال کی آمدن اور سرکاری خزانے سے اس ہسپتال کو کی گئی ادائیگی دیکھ لے تب معلوم ہوگا کہ یہ دراصل سرکاری خرچہ پر کچھ افراد کی خودمختاری ہے۔ چلیں اب ہو گیا ہے تو چلنے دیں گو کہ میرا ماننا ہے کہ یہ بالآخر نجکاری کی طرف ہی جائیں گے اور کچھ سالوں بعد جب یہ صحت کارڈ کی سہولت ختم ہو گی تو تب عوام پر بجلی گرے گی۔ حال ہی میں صوبے کے دوسرے بڑے شہر مردان میں واقع مردان میڈیکل کمپلیکس کے پورے بورڈ آف گورنرز کو فارغ کیا گیا۔ اس کے بعد ایک خبر کے مطابق انتظامی عہدوں پر تعینات افراد کو گھر بھیجا گیا حالانکہ بورڈ کا مؤقف تھا کہ انہوں نے خود استعفیٰ دیا۔ نیا بورڈ اور عبوری انتظامیہ کس حد تک ہسپتال کے مسائل سے نمٹ پائے گی اس کا اندازہ آپ کیتھ لیب سے لگا سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے جاننا ضروری ہے کہ کیتھ لیب ہے کیا؟ ملک بھر کی طرح مردان ڈویژن میں بھی امراض قلب میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ امراض قلب کی سنجیدگی اور حساسیت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ سٹنٹ کا نام بھی آج کل آپ نے بہت سنا ہوگا کہ فلاں نے دل میں سٹنٹ لگا دیئے ہیں۔ دراصل دل کے دورے میں شریانوں کے بند ہونے کا سب سے کلیدی کردار ہے۔ ان شریانوں کو کھولنے اور اس میں سٹنٹ لگانے کیلئے کیتھ لیب وہ بندوبست ہے کہ جس سے یہ علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ مردان ڈویژن کی آبادی چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پورے ڈویژن میں کہیں بھی سرکاری سطح پر کیتھ لیب نہیں ہے۔ ضلع صوابی میں پرائیویٹ کلینکس تک میں یہ سہولت موجود ہے اور مردان میں سنا ہے کہ پرائیویٹ مشین موجود ہیں۔ اگر پرائیویٹ سطح پر یہ سہولت مہیا کی جاسکتی ہے تو سرکاری ہسپتال جیسے مردان میڈیکل کمپلیکس جو صرف مردان ڈویژن کے عوام کو صحت کی سہولیات فراہم نہیں کر رہا بلکہ بونیر اور نوشہرہ کے عوام بھی اس ہسپتال کا رخ کرتے ہیں اس لیب کی عدم موجودگی بدترین غفلت اور نااہلی نہیں ہے تو کیا ہے۔ کیا صوبائی حکومت ذمہ دار ہے؟ بالکل نہیں۔ مجھے یہ ماننے میں قطعی عار نہیں کہ صوبائی وزیر تیمور ظفر جھگڑا نے کچھ ہفتے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ مردان میڈیکل کمپلیکس کو ایک شاندار کیتھ لیب فراہم کیا جائے گا۔ تو پھر کون اس کا ذمہ دار ہے؟ وہی ”خودمختار افراد”جو کہ مقامی سطح پر ہسپتال کو چلاتے رہے۔وزیر صحت کو تمام بورڈز کو پابند کرنا چاہئے کہ اجلاس کے بعد یا وقتاً فوقتاً مقامی میڈیا کو بلا کر اپنی کارکردگی اجاگر کرے۔ اس وقت میں اس موضوع پر کیوں لکھ رہا ہوں اب اس پر بات کرتے ہیں۔ دراصل کسی بھی تدریسی ہسپتال یعنی وہ ہسپتال جو میڈیکل کالج کی تربیت کا معاون ہو۔ چونکہ مردان میں ایک عدد میڈیکل کالج بھی ہے اسلئے مردان میڈیکل کمپلیکس کو تدریسی ہسپتال کا درجہ بھی حاصل ہے۔ یہاں مختلف شعبوں میں کالج کے طلبا وطالبات تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اب ان شعبوں میں شعبہ امراض قلب بھی ہے۔ اس کی رجسٹریشن کیلئے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جسے کالج اف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شعبہ ان کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو ان کی حیثیت کو معطل یا منسوخ کیا جاتا ہے۔ ان کی جانب سے ایک خط مردان میڈیکل کمپلیکس کو بھیجا گیا ہے کہ یقین دہانی کے باوجود ابھی تک کیتھ لیب کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا اور اگر چھ مہینے کے اندر یہ سہولت فراہم نہیں کی گئی تو شعبہ امراض قلب کو تدریسی درجہ سے ہٹا دیا جائے گا۔ ذرا سوچیں 2010 کو مردان میدیکل کمپلیکس کو تدریسی درجہ دیا گیا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس کو کیتھ لیب سے محروم رکھا گیا ہے اب چھ مہینوں میں یہ کام کس طرح ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب جلد بازی میں ہوگا تو کہیں کمیشن مافیا کا شکار نہ ہوجائے یا کوالٹی پر کمپرومائز نہ کیا جائے۔ کیونکہ اڑتے اڑتے خبر سنی ہے کہ نوشہرہ میں کیتھ لیب کیلئے رقم کے لین دین کی وجہ سے کئی مسائل درپیش تھے۔ اسلئے وزیرصحت کو نہ صرف جلد ازجلد کیتھ لیب کے قیام پر زور دینا چاہئے بلکہ کوالٹی بھی دیکھنی ہوگی کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں