کہتے تھے ہم اے داغ وہ کوچہ ہے خطرناک

ایک افراتفری مچی ہوئی ہے ‘ حکومتی جماعت اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں ممکنہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پیچ پڑنے کے امکانات سامنے آرہے ہیں ‘ پی ڈی ایم کے اندر چند ماہ پہلے جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی تھی ، اس سے سرکاری حلقے بہت خوش تھے ‘ تاہم اس صورتحال سے حکومتی حلقے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جس طرح اپنے مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے ان کے لئے مشکلات میں اضافہ کر رہے تھے ‘ اس کے خطرناک اور منفی نتائج نے بالآخر ایک بار پھر حزب ا ختلاف کی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی سوچ اپنانے پر مجبور کیا یعنی بقول احمد فراز
اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا
کیونکہ جس طرح پی ڈی ایم کی کمر میں مبینہ طور پر پیپلز پارٹی نے چھرا گھونپ کر کچھ حلقوں کو خوش کیا اس کے بعد پیپلز پارٹی کی توقعات بھی پوری نہیں ہوئیں اور آصف زرداری کے ساتھ جومبینہ وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا کرنا تو درکنار ‘ الٹا اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی ‘ تاہم آصف زرداری بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے’ موصوف کے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ ایک زرداری سب پر بھاری تو وہ ہمیشہ چال چلتے ہوئے ادھر ادھر نگاہیں جمائے رکھتا ہے ‘ اس لئے جب ان پر حقیقت کا ادراک ہو تو انہوں نے بھی”یوٹرن” لینے میں ہی عافیت جان کر ایک بار پھر پی ڈی ایم کے ساتھ روابط استوار کر لئے ‘ ا ور اب ایک بار پھرپی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے مابین تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے باہم شیر و شکر ہونے کی خبریں سیاسی فضا پر چھائی ہوئی ہیں اور تینوں اہم جماعتوں یعنی لیگ نون ‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان مشترکہ تحریک انصاف کے خلاف ایک بار پھر عدم اعتماد کی تحریک برپا کرنے پر اتفاق ہوجانے کے بعد جو سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ‘ ان سے حکومتی صفوں میں تشویش اس قدربڑھ چکی ہے کہ بظاہر تو وزیر اعظم نے چند روز پہلے حزب اختلاف کو گھبرانا نہیں کا مشورہ دیا تھا لیکن واقفان حال اس کے برعکس صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے مختلف وزراء کے
بیانات کے اندر”تھرتلی”مچ جانے پر تبصرے کر رہے ہیں ‘ اس حوالے سے تازہ ترین وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کی جانب سے حزب اختلاف پر حکومتی جماعت کے تین ممبران قومی اسمبلی کو”خریدنے” کے الزامات عاید کئے گئے ہیں ‘ جس میں کتنی صداقت ہے کیونکہ حزب اختلاف کے رہنماء تو اس کے برعکس متعدد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے حوالے سے یہ دعوے کر رہے ہیں کہ کم از کم بیس تا پچیس سرکاری ارکان اسمبلی جماعت ان سے رابطے میں ہیں اور وہ صرف آئندہ انتخابات میں ان کو ٹکٹ دینے کے وعدے پر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ جوحال ہی میں نون لیگ کی رہنماء مریم اورنگزیب نے الزام عاید کیا تھا کہ بعض مخصوص حلقوں کی جانب سے ان کی جماعت کے ممبران اسمبلی کو فون کالز موصول ہو رہی ہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں حصہ ڈالنے سے باز رہیں اور ساتھ ہی خبردار کیا تھا کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو وہ نام لینے پر مجبور ہو جائیں گے ‘ اس سے بعض وی لاگرز نے دبے لہجے میں فون کالز میں ملوث مبینہ کردار کا اشاروں کنایوں میں تبصرہ کرتے ہوئے صورتحال کو بڑی حد تک واضح کر دیا ہے یعنی بقول فراز
میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
دوسرا مصرعہ یہاں غیر ضروری ہے اس لئے اس سے احتراز کیا جارہا ہے ‘ بہرحال حالات جس تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ان کے نتائج پر اب بھی حتیم تبصرہ نہیں کیا جا سکتا ‘ کیونکہ اگر حزب اختلاف کی جماعتیں اپنی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں تو دوسری جانب حکومت بھی اتنی بے خبر تو نہیں اور وہ ہر چال کا توڑ کرنے کی حتی ا لامکان کوشش کر رہی ہے ‘ اگرچہ حکومتی صفوں میں مبینہ گھبراہٹ بھی وزراء کے بیانات سے واضح ہو رہی ہے اور اس صورتحال میں بعض تجزیہ نگار یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کسی بھی وقت اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرکے بازی پلٹ سکتے ہیں ‘ یا پھر کوئی ایسا اعلان کر سکتے ہیں یعنی ایک اہم عہدے پر اپنی من مرضی کے مطابق بھی تقرری کا اعلان کرکے حزب اختلاف کی جماعتوں کو نئی مشکلات میں ڈال سکتے ہیں ۔ تاہم ایسا قدم اٹھانے کی صورت میں بھی کچھ حلقے اس کے نتائج سے خبردار کر رہے ہیں۔ ادھر ایک اہم تبصرہ نگار نے اپنے وی لاگ میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وزیر اعظم نے روس کے دورے کے دوران ہی ہدایات دیدی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے دیا جائے’ مگر یہ ممکن ہے ہی نہیں اس لئے کہ حزب اختلاف کی جماعت سے تحریک کا نوٹس اسمبلی سیکرٹریٹ کو موصول ہونے کے بعد آئینی تقاضوں پر عمل کرنا لازمی ہے اور غالباً نوٹس ملنے کے بعد سات دن کے اندر اندر اجلاس بلوانا سپیکر کی مجبوری ہو گی ‘جبکہ سامنے آنے والی خبروں کے مطابق حزب اختلاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا نوٹس اس ماہ کے آخر یا پھر مارچ کے پہلے ہفتے میں ٹیبل کر دی جائے گی کیونکہ اطلاعات کے مطابق مخالفین نے ہوم ورک مکمل کرکے اپنے حمایتیوں کی مطلوبہ تعداد سے بھی زیادہ حمایتی جمع کر لئے ہیں ‘ اب ان خبروں میں کتنی صداقت ہے یہ تو آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا ‘ جبکہ تحریک کے دوران حق یا مخالفت میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد میں ممکنہ ”گڑ بڑ” سے بچنے کے لئے بھی حکمت عملی مرتب کر لی گئی ہے ‘ لیکن بعض اشارے تحریک کی ناکامی کے حوالے سے بھی مل رہے ہیں اور جس طرح ماضی میں پیپلز پارٹی کے رہنماء آصف زرداری پر حزب اختلاف کے بعض اقدامات کو ناکام بنانے کے الزامات سامنے آئے تھے ‘ اب بھی ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کچھ ایسی ہی صورتحال دوبارہ پیش آسکتی ہے ‘ اس لئے آخری نتیجہ کیا ہو گا؟ اس بارے میں چند روز انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ کیونکہ پیپلز پارٹی سے علیحدہ سے لانگ مارچ کا جو شوشا چھوڑا ہے اس سے بعض تجزیہ نگار یہی رائے اخذ کر رہے ہیں کہ موجودہ شور شرابا ‘ غوغا آرائی ‘ ملاقاتیں ‘ وعدے وعید سب ”دھوکے کی ٹٹی” ہی لگتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں
مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت

کہتے تھے ہم اے داغ وہ کوچہ ہے خطرناک
چھپ چھپ کے مگر آپ کاجانا نہ ہوا بند