بار بار پیش آنے والے افسوسناک واقعات

جوڈیشل کمپلیکس تاجہ زئی لکی مروت میں وکلاء کی جانب سے جج پر تشدد نہایت افسوسناک واقعہ ہے معاشرے میں قانون کی تشریح اور انصاف کی فراہمی کے ادارے کے معززمنصب پر فائز ہونے والی شخصیت کے ساتھ اگرخود انصاف اور قانون کی بالادستی کے علمبردار ہی اس طرح سلوک کا مظاہرہ کرنے پہ آجائیں تو معاشرے میں انصاف کے اداروں کی وقعت میں کمی فطری امر ہوگا یہ پہلا واقعہ نہیں جب وکلاء برادری کی جانب سے اس درجہ اشتعال کا مظاہرہ کیا گیا ہے بلکہ اس طرح کے واقعات اب اکثر و بیشتر پیش آنے لگے ہیں جو نہ صرف عدم برداشت کا معاملہ ہے بلکہ قانون دانوں کی جانب سے قانون اور عدلیہ کے احترام کے حوالے سے بھی تشویشناک صورتحال کا باعث ہے ۔بدقسمتی سے اس طرح کے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف ٹھوس کارروائی کم ہی ہوتی ہے زیادہ تر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کے امکانات معدوم ہونے کی بجائے موجودرہتے ہیں۔یہ واقعہ کیسے پیش آیا اس واقعے کی تحقیقات کے بعد قانونی کارروائی یقینی بنا کر ہی اس کا ازالہ اور آئندہ اس طرح کے واقعات کے امکانات کو کم سے کم کیاجا سکے گا اس ضمن میں کسی مصلحت کا شکار نہ ہوا جائے ۔
مسلمانوں کے بعد اب سکھ نشانے پر
بھارت میںحجاب کی سخت مخالفت کے بعد اب سکھوں کو پگڑی اتارنے کا حکم اور کالج انتظامیہ کی جانب سے سکھوں کی پگڑی کو بھی ممنوع قرار دینابھارت میں اقلیتی برادری کو دیوار سے لگانے اور ان کے حقوق کی سراسرنفی کے مترادف ہے جس کا انسانی حقوق کے تحفظ کے عالمی اداروں کو سخت نوٹس لینا چاہئے ۔بھارت خود کو بڑا جمہوری ملک تو گردانتا ہے لیکن بھارت میں جمہوری روایات اور برداشت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی اور نہ ہی بھارتی حکومت اور عدالتیںاس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ دونوں انتہا پسندوںکے زیر اثراور ان کے سہولت کار ہیں تو غلط نہ ہوگا۔بھارت میں مسلم اور سکھ برادری کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اس سے ان برادریوں کے نوجوانوں کا انتہا پسندی اور تشدد و انتقام کی راہ پر چل نکلنے کا امکان بڑھتا جارہا ہے اور تصادم و انتقام جس معاشرے میں آجائے اس معاشرے کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔معلوم نہیں بھارتی سرکار کو کب اس کا ادراک ہو گا اور وہ اقلیتی برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری پر کب توجہ دے گی۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت