سکیورٹی کے نئے چیلنجز

ارض پاکستان سے دہشت گردوں کے مکمل صفایا کرنے اور سرحد پار سے درپیش خطرات سے ملک کو محفوظ بنانے کی طویل جدوجہد کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا بلکہ یہ ایک ایسے غیر متوقع دور میں داخل ہو گیا ہے جس کا اس طرح سے اندازہ نہ تھا۔ شمالی وزیرستان کے علاقے ہمزونی میں انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر آپریشن کے دوران فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ میںچھ دہشت گرد ہلاک کئے گئے ہیں۔ دریں اثناء پاکستانی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان چمن سرحد پر جھڑپیں ہوئی ہیںکشیدگی کے باعث سرحد کو ہر قسم کے آمدورفت کے لئے بند کر دیا گیا ہے اگرچہ اس حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی سرکاری اعلان سامنے نہیں آیا تاہم حکام کی جانب سے جھڑپوں کی تصدیق کی گئی ہے اطلاعات کے مطابق تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب افغان طالبان نے پاکستانی حدود میں چیک پوسٹ قائم کرنے کی کوشش کی جن کو روکنے پر طالبان نے فائرنگ شروع کر دی نتیجے میں پاکستانی اہلکاروں کو جوابی کارروائی کرنا پڑی۔ افغان طالبان کے ترجمان نے اپنے ٹویٹر بیان میں اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ قندھار کے علاقے سپین بولدک میں پاکستانی محافظوں کے ساتھ فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے ۔طالبان ترجمان کے بیان سے قطع نظر اور پاکستانی حکام کی جانب سے اگرچہ اس با ت کی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم یہ واقعہ کافی سنگین تھا جو پاک افغان سرحد پر واقعہ مرکزی گزر گاہ باب دوستی سے تقریباً دو کلو میٹر دور مشرق کی جانب پیش آیا اس کے بعد کشیدگی باب دوستی اور آٹھ سے دس کلو میٹر کے علاقے میں قائم چیک پوسٹوں تک پھیل گئی۔ جھڑپوں کے دوران دونوں جانب سے ہلکے اور بھاری ہتھیاروںکو استعمال کیاگیا اگرچہ پاکستان اور افغان طالبان کے اعلیٰ حکام کے درمیان رابطوں کے بعد کشیدگی میں کمی آئی اور فائرنگ کا سلسلہ رک گیا ہے لیکن بہرحال یہ ایک سنجیدہ واقعہ اس لئے ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ اپنی نوعیت کی پہلی جھڑپ ہے جس میں بھاری ہتھیار بھی استعمال کئے گئے ہیں۔تشویشناک امر یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد صورتحال میں بہتری کے حوالے سے توقعات نہ صرف پوری نہیں ہوئیں بلکہ کرم میں افغان سرحد سے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد اب بلوچستان کی سرحد پر طالبان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ اپنی نوعیت کا حساس واقعہ ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر اثر پڑسکتا ہے ۔اگردیکھا جائے تو پاکستان ان واقعات کے رونما ہونے سے قبل جس طرح افغان حکومت کی حمایت اور خاص طور پر افغان عوام کے حوالے سے جس طرح سفارتی سطح پر متحرک تھا اور پاکستان ان کے مسائل کے حل اور مشکلات کو دور کرنے کے حوالے سے جو اقدامات اٹھانے کی سعی میں تھا اب اس طرح کی صورتحال نظر نہیں آتی بلکہ پاکستانی حکام نے پراسرار خاموشی اختیار کرلی ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت پہلے جیسی نہیں رہی اس کی سب سے بڑی وجہ طالبان عبوری حکومت کی جانب سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پوری نہ کرنا ہو سکتا ہے ۔بہرحال دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی نوعیت جو بھی ہو یہ صورتحال کو پیچیدہ اور مشکل بنانے کا باعث ہوسکتا ہے ۔ پاکستان کو بجا طور پر توقع تھاکہ افغان طالبان ان میں اور ٹی ٹی پی کے درمیان ایسا کردار ادا کریں گے جس کے نتیجے میں یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے اس ضمن میں طالبان نے ثالثی کا کردار ادا کرنے میں شاید وہ دلچسپی نہیں دکھائی جس کی ضرورت تھی بلکہ بعض عوامل کی بنیاد پر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغان طالبان بھی گویا فریق بن چکے ہیں اور مخالفین کو ان کی سرپرستی حاصل ہے۔چمن سرحد پر افغانستان کے فوجیوں کی جانب سے پاکستانی علاقے میں چیک پوسٹ کے قیام کی کوشش حیرت انگیز امر ہے جسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کو بزور قوت جواب دینا پڑا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی حد بندی پر تنازعات اٹھتے رہتے ہیں لیکن چمن کی سرحد پر جہاںسرحد کا واضح تعین موجود ہے وہاں پر اس طرح کی کوشش معاملات کو جان بوجھ کر خراب کرنے کے مترادف ہے جو کسی صورت بھی دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیںقبل ازیںطورخم سرحد پر پاکستان کی جانب سے بھیجی جانی والی امدادی ٹرکوں پر لگے پاکستانی پرچم اتارنے کی کوشش کی گئی تھی ایسا لگتا ہے کہ کابل میں طالبان قیادت کی پالیسی جو بھی ہوطالبان کی صفوں میں ایک ایسا انتہا پسند گروہ موجود ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے درپے ہے۔قبائلی اضلاع کے واقعات کے پس پردہ ہاتھ بھی کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان کی سرزمین سے متعلق نکلتے ہیںیہ ساری صورتحال قابل توجہ ہے اس لئے جہاں پاکستانی سکیورٹی فورسز ا پنے علاقے میںامن کو درپیش چیلنجوں سے پوری طرح نمٹ رہے ہیں افغان طالبان کو بھی اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والوں کا راستہ روکنا ہو گا اور خاص طور پرچمن سرحد پر پیش آنے والے واقعے کی تو بالکل بھی گنجائش نہیں۔اس صورتحال میں دونوں ملکوں کے لئے بہتر یہی ہو گا کہ وہ اعتماد کی بحالی کے لئے اقدامات پرتوجہ دیں اور غلط فہمیوں کی نوبت نہ آنے دی جائے۔
شجر کاری اور پودوں کے تحفظ کی ذمہ داری
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوامحمود خان نے صوبے میں موسم بہار کی شجر کاری مہم کا افتتاح وزیر اعلیٰ ہائوس کے سبزہ زار میںزیتون کا پودا لگا کر کیاخیبر پختونخوامیںشجرکاری کی جاری مہم کے دوران دس کروڑ پودے لگانے کا ہدف مقرر کیاگیا ہے جس میں ریجن ون میں چالیس لاکھ ریجن ٹو میں چار کروڑ بیس لاکھ اور ریجن تھری میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ پودے لگائے جائیں گے ۔وزیراعلیٰ نے معاشرے کے تمام طبقات کو شجرکاری مہم میں اپنے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے ۔بلین ٹری سونامی مہم کے دوران خیبر پختونخوا میں لگائے گئے پودوں کی تعدادان کی موجودگی اور رقبہ وغیرہ کے حوالے سے قبل ازیں مختلف قسم کی شکایات اور الزامات سامنے آچکے ہیں جن کا حکومت اسمبلی میں تسلی بخش جواب دے کر حزب اختلاف کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی بہرحال اس سے قطع نظر اب جبکہ صوبے میں دس کروڑ پودے لگانے کی ایک نئی مہم شروع کی گئی ہے وہاں اس امر پر توجہ ضروری ہے کہ سابقہ غلطیوں کو نہ صرف نہ دہرایا جائے بلکہ ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر موجودہ مہم میں ان امکانات ہی کو کم سے کم کیا جائے جو تنقید یا پھر ناکامی کا باعث ثابت ہوتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ شجرکاری سے بھی زیادہ ضروری چیز پودوں کا اس وقت تک تحفظ ہے جب تک یہ موسم اور دیگر حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے ۔اس ضمن میں تقریباًدو سال پودوں کے تحفظ اور نشوونما کے حوالے سے اہم سمجھے جاتے ہیں جس پر توجہ نہ دینے سے پودوں کا ضیاع اور ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے یہ درست ہے کہ شجر کاری مہم کے دوران لگائے گئے دس کے دس کروڑ پودوں کے درخت بننے کا امکان نہیں ہوتا اور مختلف وجوہ کی بنا ء پر پودے ضائع ہونا فطری امر ہے جس سے قطع نظر کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جتنے بھی پودے لگائے جائیں ان کے تحفظ پرخصوصی توجہ دی جائے جو عملہ پودوں کی نگہداشت و حفاظت پر مامور ہے ماضی کی طرح ان کو اپنی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے مطالبات اور احتجاج کی نوبت نہ آئے ۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے جس مہم کا افتتاح کیا ہے اس مہم کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اس کے ثمرات کے تحفظ میں بھی ان کی دلچسپی خاص طور پر مطلوب ہے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس سے غافل نہیں ہوں گے ۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟