روس یوکرائن تنازعہ ، پیوٹن کیا چاہتے ہیں ؟

تین دن قبل جب روس نے یوکرائن سے باضابطہ جنگ کا اعلان کرتے ہوئے اپنی زمینی اور چھاتہ بردار فوجیں یوکرائنی حدود میں میں داخل کردی تھیں اب تک وہ یوکرائن کے بڑے علاقے پر قبضہ کرچکیں ، مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی فضائیہ نے دارالحکومت کیف سمیت درجنوں علاقوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ یوکرائن نے دعوی کیا ہے کہ اس نے مشرقی علاقوں میں 50روسی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ 5طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر بھی مارگرایا ہے جبکہ دوسری طرف روس کا دعوی ہے کہ اس نے حملہ کے آغاز پر ہی یوکرائن کے ایئر ڈیفنس کو تباہ کردیا اور چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ کا انتظام بھی سنبھال لیا ہے ۔روسی حملے کے بعد یوکرائن میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے صدر ڈیلنسکی کاکہنا تھا کہ ہم جارحیت کے مقابلہ کے لئے پوری طرح متحد ہیں۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے روسی صدر سے ٹیلیفون پر بات کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے مگر روس جارحیت پر اتر آیا ہے، اب اس کا مقابلہ ہوگا۔ دوسری طرف روسی صدر ولاد میر پیوٹن نے یوکرائنی فوج سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرونی مداخلت کی صورت میں نہ صرف جواب دیں گے بلکہ پھر لمبی مدت کی جنگ ہوگی۔ سوویت یونین کے انہدام کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والی خودمختار ریاستوں میں یوکرائن بھی شامل ہے۔ یورپی یونین نے یوکرائن پر حملے کو یورپ پر حملہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے قبل عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے روس پر زور دیا کہ وہ امن کو موقع دیں پہلے ہی کافی لوگ مرچکے ہیں۔
یوکرائن روس تنازع پر تین دنوں میں دوسری بار منعقد ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ اور برطانیہ نے روس کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جبکہ چین کا کہنا تھا کہ حالات کو اس نہج پر لانے کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے جس نے یوکرائن کو ہلہ شیری دی اور یوکرائن میں روسی زبان بولنے والی آبادی حقوق کے حوالے سے روس یوکرائن معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ سلامتی کونسل میں روس کے نمائندے نے موقف اختیار کیا کہ یوکرائن کے خلاف روس کی کارروائی اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51کے تحت درست ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے روسی حملے کا جواب دینے کے موقف کو دہرایا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے وقت عالمی طاقت کے ایٹمی ورثے کا 90فیصد یوکرائن کی ملکیت تھا روس اور یوکرائن کے درمیان ہوئے دفاعی معاہدہ کے تحت ایٹمی ہتھیار اور دوسرے سامان میں سے کچھ روس منتقل کیا گیا اور باقی تلف کردیا گیا ، یہ دفاعی معاہدہ اور دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ دیر نہ چل پائے۔ اسی وجہ امریکی مداخلت سے بنی روس مخالف حکومت کی پالیسی بھی ہے ، روس یوکرائن میں آباد روسی بولنے والی آبادی کو اپنی جغرافیائی وحدت کا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ یوکرائن پر روسی حملے کے اثرات ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں پر بھی مرتب ہوئے۔ جاپان اور سنگاپور کی مارکیٹوں میں 3فیصد مندی ریکارڈ کی گئی جبکہ ممبئی اور پاکستان کی سٹاک مارکیٹوں میں بھی منفی اثرات دیکھنے میں آئے اس کے ساتھ ہی غلے کی قیمت میں بھی 5فیصد اضافہ ہوا۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں اور متعدد بین الاقوامی شخصیات نے صدر پیوٹن سے انسانیت اور امن کے نام پر جنگ روکنے کی درخواست کی ہے۔ روسی قیادت کا موقف ہے کہ اہداف کے حصول تک روس پیچھے نہیں ہٹے گا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ روس یوکرائن کی فوج کو مختلف پاکٹس میں اس طور گھیرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جس سے گھبراکر یوکرائنی فوج ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو۔ فوجی تنصیبات کے حوالے سے اہم علاقوں اور بعض شہری مقام پر شدید بمباری اور راکٹ برسانے کا عمل اسی پالیسی کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔اکانومسٹ میں شائع ہونے والے تجزیہ کے مطابق روس حملوں کی شدت کے دوران اپنی حامی باغی یوکرائنی ملیشیا کو استعمال کرکے دارالحکومت کیف پر جلدازجلد قبضے کی کوشش کرے گا۔ عسکری امور کے روسی ماہر مائیکل کوفیف کے مطابق روس یوکرائن کو کنفیڈریشن سے منسلک کرکے وہاں اپنی حامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ اور یورپی یونین کی معاشی توسیع پسندی کاخاطر خواہ جواب دیا جاسکے۔ وزیر اعظم پاکستان نے روانگی سے قبل کہا تھا کہ ”ہم جنگ پر امن کو ترجیح دیتے ہیں”۔ اصولی پور طر جنگ پرامن کو ترجیح دینا ہی امن اور انسانیت کے مفاد میں ہے۔ مناسب ہوتا اگر روس اور یوکرائن اختلافی امور مذاکرات کی میز پر کرنے کا راستہ اپناتے البتہ یہ امر بھی دوچند ہے کہ یوکرائن کو روس کے سامنے ڈٹ جانے کا کہنے والی بعض طاقتیں اب زبانی جمع خرچ میں جتی ہوئی ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جنگ کسی تاخیر کے بغیر بند ہو تاکہ کرہ ارض کے لوگوں کے مسائل میں اضافہ نہ ہونے پائے۔ علاقائی سیاست اور دوسرے امور پر روسی قیادت کا موقف جو بھی ہو یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ جنگ مسائل میں اضافے کا سبب تو ہوسکتی ہے مسئلہ کا حل ہرگز نہیں۔ روسی قیادت کو علاقائی اور عالمی امن کی ضرورتوں کو کسی بھی طور نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن عالمی برادری اور بالخصوص اقوام متحدہ کی اپیلوں کا مثبت جواب دیں گے اور اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کریں گے کہ جنگ نے بربادیوں کے سوا انسانیت کو کبھی کچھ نہیں دیا۔
پسِ نوشت بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ ایک آدھ دن میں روس کی فوجیں یوکرائن کے دارالحکومت کیف میں داخل ہو جائیں گی اس وقت جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے روسی فوج کیف سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور روسی قیادت کی حکمت عملی یہ ہے کہ یوکرائن کی فوج صدر زیلنسکی کی حکومت کا تختہ الٹ دے۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟