نئی حکومت کو درپیش معاشی مشکلات

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت’پاکستان تحریک انصاف حکومت کے چھوڑے ہوئے چیلنجز پر قابو پانے کے لئے مختصر اور طویل مدتی اقدامات اٹھائے گی۔ وفاقی کابینہ کی تشکیل کے بعد حکومت مہنگائی اور معاشی بحالی کے منصوبوں کے ساتھ سامنے آئے گی۔قبل ازیں وزیراعظم نے قومی اقتصادی مشاورتی کونسل (این ای اے سی)تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا جس میں معروف اقتصادی ماہرین شامل ہوں گے’ تاکہ موجودہ معاشی مسائل سے نکلنے کی راہ نکالی جائے۔دریں اثناء سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس امر کا اعتراف کیاہے کہ 2018ء میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس کے پاس کوئی معاشی منصوبہ نہیں تھا۔ سابق وزیر خزانہ نے گورنر ہائوس سندھ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ معاشی منصوبہ بندی میں وقت لگتا ہے اور اس کی وجہ سے تعطل پیدا ہوا۔شوکت ترین نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور ناکامی سرکاری اداروں کو ٹھیک کرنے میں ناکامی تھی’ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پی ٹی آئی حکومت نے کچھ نہیں حاصل کیا۔انہوں نے تجارتی منازل کی تیاری میں ناکامی کا الزام بھی قبول کیا جسے حکومت اشیاء کی عالمی قیمتوں میں اضافے سے بچانے کے لیے استعمال کر سکتی تھی۔تقریباً ایک ماہ پہلے اس وقت کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین سے آئی ایم ایف نے یہ سوال کیا تھا کہ پاکستان ڈیڑھ ارب ڈالر کے سبسڈی پیکج کو کس طرح برداشت کرے گا۔ گزشتہ حکومت تو کسی طرح انکوائری سے گزر گئی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو بھی حکومت باہر سے مانگی گئی رقم کی مدد سے عوام کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرے گی اسے اسی قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اس انکوائری کے علاوہ آئی ایم ایف نے 2019 میں پاکستان کو ریسکیو پیکج کے تحت دئیے گئے 6ارب ڈالر کا جائزہ بھی شروع کردیا ہے۔ گزشتہ حکومت کا کہنا تھا کہ اس ریسکیو پیکج کی رقم واپس کردی جائے گی۔ تاہم یہ گزشتہ حکومت کا وعدہ تھا، اب جبکہ نئی حکومت آچکی ہے تو یقینا وہ گزشتہ حکومت پر اس کا الزام دھریں گے۔مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ سب موجودہ حکومت کا کیا کردہ ہے یا پھر گزشتہ حکومت کا۔ ان کو اس بات کی تشویش ہے کہ قرض خسارے کو کس طرح پورا کیا جائے اور ان کی رقم بمعہ سود کیسے واپس ملے اور کیا پاکستان ایسا ملک ہے جسے مزید قرض دیا جاسکتا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے اورملک میں نئی وسیع البنیادیا پھرمخلوط حکومت کے قیام کے بعد ٹیم کی تشکیل سے قبل ہی وزیر اعظم کی جانب سے معاشی بحالی کے منصوبوں کے حوالے سے اور موجودہ معاشی مسائل سے نکلنے کی سعی میں مختلف ماہرین معاشیات اور کاروباری افراد سے مشاورتی نشست کی ہے ۔معاشی بحالی کے حوالے سے ایک سربراہی اجلاس آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے جس میں معاشی ماہرین کی تجاویز پر غور ہونا ہے ان تمام عوامل سے نئی حکومت کی ترجیحات کا اظہار ضرور ہوتا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے کو اپنی اولین ترجیحات میں میں شامل کیا ہے بلکہ یہی وہ مسئلہ ہے جو اس وقت ملک کو درپیش تمام مسائل کی جڑ اور سرفہرست ہے اگرچہ معاشی اور اقتصادی مسائل کے حوالے سے کسی ایک حکومت کو مورد الزام ٹھہراناانصاف نہ ہو گابلکہ یہ تمام حکومتوںکامشترکہ مسئلہ چلا آرہا ہے جس کے حل میں کسی بھی حکومت کو کامیاب ہونا تو درکناربلکہ ہر جانے والی حکومت آنے والی حکومت کو ورثے میں پیچیدہ معاشی مسائل منتقل کرتی چلی آئی ہے اسے اتفاق ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ رخصت ہونے والی مسلم لیگ نون کی حکومت تحریک انصاف کی بننے والی حکومت کو معاشی طور پر مشکلات کا شکار بنانے کے لئے جو خندق چھوڑ گئی تھی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اب جو نئی حکومت آئی ہے اسے بھی گہرے گڑھے کی صورت میں معاشی مکافات عمل کا سامنا ہے۔ سابق وزیر خزانہ کی جانب سے 2018ء میں اقتدار میں آنے والی حکومت کے پاس کسی معاشی منصوبہ کے نہ ہونے کا پریس کانفرنس کرکے اعتراف سے ان کے مدت اقتدار کے دوران ملک کے معاشی مسائل میں اضافہ کی وجہ سمجھ میں آتی ہے ۔نئی حکومت چونکہ سابق حکومت کی طرح نو آموز نہیں بلکہ اس کے معاشی ماہرین تحریک عدم اعتماد کی منصوبہ بندی کے ساتھ ہی ملکی معاشی مسائل کے حل پر سوچ بچار کا آغاز کر دیا تھا اور ان کا کچھ نہ کچھ ہوم ورک تھا اس لئے ان کا اپنے پیشرئووں سے مختلف ہونا ممکن ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ معاشی منصوبہ بندی میں وقت لگتا ہے اور اگر پہلے سے معاشی طور پر نہایت مشکلات موجود ہوں تو جلد بہتری کی توقع حقیقت پسندانہ امر نہ ہوگاان تمام عوامل کے باوجودماضی میں مسلم لیگ نون کی حکومت آنے کے ابتدائی دنوں میں معاشی بہتری اگر نہ بھی قراردیا جائے تو بھی صورتحال پر قابو پانے میں کم وقت صرف ہونے کا مشاہدہ رہا ہے جس کے تناظر میں کم از کم اس توقع کے اظہار کی گنجائش ہے کہ اگر فوری بہتری کی کوئی صورت نہ بھی سامنے آئے تو معاشی حالات میں مزید بگاڑاور مشکلات میں ٹھہرائو کی کیفیت بہرحال ممکن ہو سکتے ہیں اس امر کو تقویت اس لئے بھی ملتی ہے کہ ملک میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے ساتھ ہی اسٹاک ایکس چینج میں نمایاں تیزی دیکھی گئی جبکہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی آرہی ہے حکومت کی باقاعدہ تشکیل کے بعد جب خزانہ اور اقتصادی منصوبہ بندی کی وزارتوں میںحکومتی ٹیم باقاعدہ طور پر کام شروع کرے گی ۔جن حالات میں موجودہ حکومت کی تشکیل ہو رہی ہے کسی کو الزام دیئے بغیر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ معاشی اور اقتصادی طور پر حالات سخت ہیں اور معاشی چیلنجوں پر قابو پانا کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ نئی حکومت کو ثابت کرنا ہو گا کہ اس کے پاس بہتر معاشی و اقتصادی عملی پالیسیاں ہیں توقع کی جانی چاہئے کہ ملک میںآنے والی سیاسی تبدیلی صرف چہروں کی تبدیلی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ مہنگائی پر قابواور معاشی اور اقتصادی صورتحال میں بھی بہتری نظر آئے گی۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت