سیاست بت کدے سے آگئی کعبہ کی چوکھٹ پر

ملک میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران آخر ختم تو ہوگیا مگر جمہوریت کے حوالے سے ایک منفی تاثر اور عوامی رحجان کو سیاسی امور سمجھنے کی بجائے شخصیات کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم کر گیا۔ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور ان کی وزارت عظمیٰ اپنے انجام کو پہنچی ۔آئین و جمہوریت کی بالادستی کے تقاضے یہی تھے کہ ایوا ن میں اکثریت نہ ہونے پر اپنے عہدہ سے مستعفی ہو جانے والا باوقار راستہ اختیار کیا جاتا لیکن سابق وزیر اعظم اور ان کی جماعت کے تمام اراکین نے اسمبلی کی رکنیت سے آزاد ہو کر پر امن احتجاجی جلسوں میں عوام کو مخاطب کرنا شروع کر دیا۔اب وہ اسمبلی میں بیٹھنے کی بجائے سڑکوں پر نکل آئے اور یوں سیاسی و قومی معاملات کو بھی اسمبلی سے اُٹھا کر سڑکوں پر لے آئے۔
پی ٹی آئی نے جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تو بہت سے سیاسی عمائدین نے انہیں توجہ دلائی کہ سڑکوں پر معاملات طے کرنے کی روایت نہ ڈالیں بلکہ آئینی و پارلیمانی روایات کو مستحکم رکھنے کو اسمبلی کا رخ کرنا چاہیے۔ اس دھرنے نے ملکی سیاست میں احتجاج کی ایک نئی طرح ڈالی اور اب تو ہر طبقہ بشمول سرکاری ملازمین نے بھی اپنے مطالبات کے حق میں یہی طریقہ اپنا لیا ہے۔ ہم اپنی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں ایسے کسی منصوبہ ساز اور بااثر قوت کی منصوبہ بندی نظر آتی ہے جو سیاست اور ملکی معاملات کو اپنی مرضی سے جب چاہیں ایک نیا موڑ دے دیتے ہیں۔ اپنی منشا سے صورتحال بدل دی جاتی ہے اور کوئی چال چلنے کو نئے مہرے ڈھونڈ لیے جاتے ہیں۔ عوامی رحجانات اور اکثریتی ترجیہات کو دیکھ کر جب مقبول عام فیصلے کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر اس کے مطابق بیانیہ تیار کر کے اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں۔ ماضی میں سب نے دیکھا کہ آمریت کے ایک دور میں اسلام کا نعرہ بلند کیا گیا۔ اسی نعرے یابیانیہ کے طفیل کئی گروہ اور جماعتیں ملکی سیاست میںعملی حصہ لینے لگیںبلکہ اُنہیں ضرورت کے مطابق آگے لایا جاتا رہا۔ صرف وہی کام کرتے جو ذمہ ہوتا۔مقدس ہستیوں کے تحفظ کی آڑ میں ایسی مذہبی تڑپ پیدا کی گئی جس نے منافرت میں اضافہ کیااور ابھی تک جان لیوا حادثات کا سامنا کیا جارہا ہے۔ آمریت کے مقابلے میں اگر عوام جمہوریت کے حق میں جب جوش و جذبہ ظاہر کرنے لگتے تو پھر ایک خاص تعداد میں سیاست کار تیار کیے جاتے جو حکومت سازی میں مہروں کا کردار ادا کرتے ہیں۔سیاسی جماعتیں حصولِ اقتدار میں اس قدر پیش پیش ہوتی ہیں کہ اپنے کسی منشور اور فکری وابستگی سے بھی ہٹ جاتی ہیں۔ اب سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کا فرق باقی نہیں رہا ۔ ہم اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت میں تمیز نہیں کر سکتے۔ کوئی سیاسی نظریہ پیش نظر نہیں مگر ملک کے ‘نظریاتی سرحدوں’ کا تحفظ کرنے والوں میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی منصوبوں کے فنڈ جاری کرنے سے انہیں پارلیمانی اور جمہوری اقدار اپنانے کی بجائے ووٹوںکا بیوپاری بنا دیا گیا ۔ اس لین دین میں وہ لوگ سیاست میں آنے لگے جن کی موجودگی اور سوچ نے سیاست کو بڑا نقصان دیااور لوگ متنفر ہونے لگے۔ یہاں لوگوں کو مسلسل داخلی اور بیرونی سازشوں سے ڈرا کر اُنہیں ذہنی طور پہ قائل کیا جاتا رہا کہ سیاستدان اس میں ملوث ہیں۔ سیاست میں اختلاف رائے کو ہمیشہ غداری قرار دیا جاتا رہا اورکئی سیاستدان اس کے سزاوار ٹھہرے۔نئے نئے بیانیے سامنے آتے رہے ، جس کی بنیاد پہ لوگوں کی ہمدردی حاصل کر کے انتخابات میں حصہ لیا جاتا رہا۔ ملک کوریاستِ مدینہ کی طرز پر ریاست بنانے کا عندیہ دیا گیا۔ احتساب کی آڑ میں سیاسی مخالفین پہ نہ صرف مقدمات بنائے گئے بلکہ اُن کی اس قدر کردار کشی کی جاتی رہی کہ عوام کی اکثریت چند سیاستدانوں کو صادق و امین اور چند کو چور،ڈاکو اور لٹیرے سمجھنے لگے ہیں۔ ایک بیانیہ ناکام ہوتا ہے تو فوراً دوسرے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اسی سے پھر عوام کی ذہن سازی کی جاتی ہے، جسے مقبول عام کر کے مخالفین کو حقارت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ سیاسی اور جمہوری روئیے ہرگز نہیں بلکہ فسطائیت ہے۔ اب عامیانہ لب و لہجہ اور بازاری زبان اسی فسطائیت کا تحفہ ہے جس نے لوگوں میں غور وفکر پر مبنی تنقیدی شعور اور دانشمندانہ مکالمہ کو ختم کر کے گالم گلوچ کو عام کر دیا ہے۔ لوگ کسی سیاسی فکر پہ بات کرنے کی بجائے شخصیات کی حمایت اور مخالفت میں بٹ چکے ہیں اور ہر جگہ صرف یہی محاذ آرائی جاری ہے۔ میڈیا نے بھی اس حوالے سے منفی کردار ادا کیا ہے۔ یہ سیاستدانوں کی غیر دانشمندی ہے کہ لوگوں کی اکثریت ان سے متنفر ہوتی جارہی ہے ، سیاست سے برگشتہ ہو رہی ہے اور جمہوریت کو چھوڑ کر کسی اور نطام کے بارے سوچ رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسل کو دانستہ طور پر سیاسی شعور اور جمہوری اقدار سے محروم کیا جارہا ہے۔
سیاست بت کدے سے آگئی کعبہ کی چوکھٹ پر
اب اس کے لوٹ آنے پر ترانے گائے جائیں گے

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟