مشرقیات

مولانا آزاد شخصی اور فروعی مباحث سے کنارہ کش رہنے والے بڑے بااصول اور ضابطے کے آدمی تھے۔ ملک کی آزادی کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ وہ کبھی کسی فورم پہ زیادہ بحث و مباحثہ میں نہیں پڑتے تھے بلکہ ضرورت کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ انہوں نے بہت سے قومی رہنماؤں کی کمزوریوں اور قومی مسائل پراپنے خاص انداز میں تاثرات بیان کیے ہیں ۔ مولانا کا اپنا ایک مخصوص زاویہ نظر تھا اور وہ اس پر اتنی مستقل مزاجی سے قائم رہتے کہ دوسروں کی رائے کو وقعت ہی نہیں دیتے تھے۔ اگرچہ حب الوطنی اور قوم پرستی کے حوالہ سے وہ سیاسی رفیقوں کے فہم و تدبر اور خصوصاً فرقہ وارانہ معاملات میں ان کے رویہ سے مطمئن نہیں تھے لیکن مجبوری یہ تھی کہ ان کی نظر میں صرف گانگرس ہی وہ جماعت تھی جو متحدہ قومیت کی بنیاد پر پورے ملک کی آزادی کے لیے جدو جہد کر رہی تھی۔ اپنی کتاب میں انہوں نے مسلم لیگ کی بالکل ہی یک طرفہ تصویر پیش کی ہے لیکن یہ اقرار بھی کیا ہے کہ وہ لیگ کے تاسیسی اجلاس میں شریک تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے حالات میں کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنما جن جذباتی اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہوئے،اس کی وجہ سے واقعات اور معاملات کو اصلی روپ میں دیکھنا ان کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ خود مولانا کو بھی اس سے بری قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن ان کے قلم نے یہ لکھنے میں کوتاہی نہیں کی کہ مُلکی تقسیم کی جوابدہی خود ان کے کانگریسی رفیقوں پر ہے ، مسلم لیگ اور جناح پر نہیں۔ مولانا نے اس سچائی کا اظہار اس وقت کیا جب ان کے کانگریسی رفقاء اقتدار پر قابض ہو کر سرکاری پراپیگنڈہ کے ذریعہ دُنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو چکے تھے کہ ملک کی تقسیم کے بارے جو یہ غلط فہمی پھیلا دی گئی تھی کہ اس میں سراسر قصور مسلم لیگ یا مسلمانوں کا ہے تو اس کا پردہ چاک کرنے کی شروعات انہوں نے کی یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا آزاد ملک کی تقسیم کا اصل ذمہ دار اپنے عزیز دوست پنڈت جواہر نہرو کو سمجھتے تھے۔ ١٩٣٧ کے صوبائی انتخابات کے بعد جب یوپی کی وزارت میں مسلم لیگ کی شمولیت کا مرحلہ آیا تو پنڈت نہرو نے مولانا کی اس رائے سے اختلاف کیا کہ مسلم لیگ کے دو نمائندوں کو وزارت میں شامل کیا جائے۔ اس سلسلہ میں مولانا لکھتے ہیں ” لیگ کی طرف سے تعاون کی پیشکش کو ٹھکرا کر جواہر لال نے یو پی میں لیگ کو نئی زندگی بخش دی۔ہندوستانی سیاست کا جس نے بھی مطالعہ کیا ہے ،وہ جانتا ہے کہ لیگ کی دوبارہ تنظیم یو پی میں کی گئی ۔ مسٹر جناح نے صورتحال سے پورا فائدہ اُٹھایا ، جس کا آخری نتیجہ پاکستان کا قیام تھا ۔”مولانا نے” انڈیا ونز فریڈم ” میں آزادی کی تاریخ کے دیگر اہم واقعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟