فارن فنڈنگ کیس ‘منطقی انجام قریب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فارن فنڈنگ کیس میں پاکستان تحریکِ انصاف کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ30دن کے اندر اندر اس مقدمے کا فیصلہ سنائے۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ایک کا دائر کردہ یہ مقدمہ2014سے زیر التواچلا آرہا تھاالزام یہ ہے کہ تحریک انصاف نے سیاسی جماعتوں کے لئے موجود قانون پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002کی خلاف ورزی کی ہے۔واضح رہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس2002کے تحت پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے لیے غیر ملکیوں سے فنڈز حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔الیکشن کمیشن ایکٹ 2017کے سیکشن 204کے سب سیکشن 3کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت’ ملٹی نینشل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کئے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام عطیات اوورسیز پاکستانیوں نے باضابطہ طور پر پی ٹی آئی کو دئیے اور ان میں کوئی ممنوعہ ذریعہ شامل نہیں ہے۔فارن فنڈنگ کیس کا مقدمہ بہت عرصے سے التواء کا شکارتھا جس پرالیکشن کمیشن کو تنقید بھی برداشت کرنا پڑی تاہم اس پیچیدہ کیس میں رفتہ رفتہ تحقیقات ہوتی رہیں اور اب الیکشن کمیشن اس مقدمے کو نمٹانے کے مرحلے پر پہنچ چکی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت کے بعد الیکشن کمیشن ایک ماہ کے اندر اندر فیصلے سنانے کا پابند ہے فیصلہ کیا آتا ہے اس حوالے سے تو کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی البتہ ماہرین کی جانب سے اس حوالے سے وقتاً فوقتاً جو رائے دی جاتی رہی اور جن حقائق کا تذکرہ ہوتا رہا ہے اس کے تناظر میں متوقع فیصلہ پہلے سے مشکلات کا شکار تحریک انصاف کی بطور جماعت اور اس کی قیادت اور بعض اہم رہنمائوں سبھی کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ۔
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا
تحریک عدم اعتمادکی کامیابی پرعہدے سے سبکدوش ہونے والے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنے کو غلطی قرار دینا بعد از وقت ہے اب اس کا اعتراف جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے دکھوں کا مداوا تو نہیں لیکن ان کے حوالے سے غلط فہمیوں کا ازالہ ضرور ہو گاجسٹس فائز عیسیٰ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائزہونے سے قبل ہر قسم کے شکوک و شبہات سے مبرا ہو کر عہدے پر فائز ہونا ان کے وقار کے لئے ضروری تھا وزیر اعظم سے غلطی ہوئی تھی ان کو غلط مشورے دیئے گئے تھے یا پھر اس کی دیگر وجوہات تھیںاس حقیقت سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے جو بھی ہو تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا اور صحیح فیصلہ کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری تھی جس میں غفلت ہوئی وزیر اعظم غیر جانبدار قانونی ماہرین سے رائے لیتے وکلاء تنظیموں اور میڈیا کی سنی جاتی تو اس غلطی کی نوبت ہی نہ آتی جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کا خاندان قانونی جنگ پہلے ہی جیت چکے تھے ۔ہمارے حکمرانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا ضمیر محرومی اقتدار و اختیار رات کے خاتمے کے بعد ہی کیوں جاگ جاتا ہے اور عہدے پر ہوتے ہوئے وہ صحیح فیصلہ کیوں نہیں کر پاتے اس کی وجہ تو نوشتہ دیوار ہے جسے حکومت وقت اور عہدوں پر فائز افراد پڑھ کر سبق حاصل کریں تو یہ ملک و قوم اور خود ان کے مفاد میں بہتر ہوگا بعد میں پیشمانی کے ا ظہار کا کوئی فائدہ نہیں اور اس سے ضمیر کا بوجھ شاید ہی کم ہو۔

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین