دیر آید درست آید

پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے واضح کر دیا گیا ہے کہ سفارتی کیبل کے ذریعے کوئی سازش ثابت نہیں ہوئی امریکہ نے کوئی اڈے نہیں مانگے اور حکومت کی تبدیلی عام سیاسی مرحلے کے ذریعے ہوئی۔نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ استعمال نہیں ہوا انہوں نے اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی اور رول آف لاء کو یقینی بنانے پر سب نے اتفاق کیا ہے اور جمہوریت میں سب اداروں کا آئین کے دائرے میں کام کرنا ملک کے بہترین مفاد میں ہے ۔پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے پریس کانفرنس اور اخبار نویسوں کے سوالات کے جوابات دینے سے بہت سارے سوالوں کا جواب سامنے آیا ہے جس سے ان ساری غلط فہمیوں کی بھی وضاحت ہو گئی ہے جس کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش کا جو بیانیہ بنایا گیا تھا اور حکومت کے خاتمے کی اس مبینہ وجہ کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر جس طرح اختیار کیا گیااس پریس کانفرنس کے بعد اس سمیت ان تمام دیگر دعوئوں کی نفی ہو گئی ہے عوام کے جذبات ابھارنے کے لئے جن کا وقتاً فوقتاً سہارا لیا جاتا رہا۔ پاک فوج کے کردار کو مشکوک بنانے کی مہم چلائی جا رہی تھی ۔ پاک فوج کے ترجمان نے بہت سے معاملات پر پہلی مرتبہ عسکری قیادت کی طرف سے غیر روایتی انداز میں معاملات کی وضاحت کی ا نہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے، یہ مہم نہ پہلے کامیاب ہوئی اور نہ آئندہ ہونے دیں گے۔عوام کی حمایت کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے حالات کی اس تعبیر کے بعد پراپیگنڈے کا دم توڑنا تو فطری امر ہے ہی اب پراپیگنڈے سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں نہ صرف واضح کمی آئے گی بلکہ اس کا مسکت جواب دینے کی ذمہ داری کا بھی احساس بڑھے گا دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس سے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہاں موجود اعلی قیادت نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے پر مکمل اتفاق کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ ہم اس سے باہر رہنا چاہتے ہیں، ہمیں اس بیانیے سے باہر رکھیں۔انہوں نے غیر ملکی مراسلے کے حوالے سے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں ہے۔ اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے۔تحریک عدم اعتماد کے دوران فوج کے کردار کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ سیاسی ڈیڈلاک کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشنز وزیراعظم کے سامنے نہیں رکھے تھے۔بلکہ وزیراعظم آفس کی جانب سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا تھا کہ بیچ بچائو کی بات کریں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات چیت کرنے پر تیار نہیں تھی۔ان تمام معاملات کے حوالے سے واضح انداز میں اظہار خیال اور عسکری قیادت کا موقف غیر معمولی طور پر ایک ایسا واضح اور جامع پیغام ہے جس کے بعد تمام غلط فہمیوں اور پراپیگنڈے کا دم توڑجانا فطری امر ہوگا سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران اپنی جیب سے ایک مبینہ خط نکال کراسے لہراتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ متحدہ اپوزیشن ایک”بیرونی سازش”کے ذریعے ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے ایک سیاسی بیانیے کے طور پر اپنائے رکھا نیزیاد رہے کہ ڈپٹی سپیکر کی3اپریل کی رولنگ سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں تیار ہونے والی یہ”سازش”قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں”بے نقاب”کی گئی جہاں فوجی سربراہوں کی موجودگی میں اس سازش کی تفصیل بتائی گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے منٹس میں یہ بات لکھی گئی کہ یہ جو عدم اعتماد آئی ہے اس کی سازش باہر تیار ہوئی۔ گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد تمام تر صورتحال طشت ازبام ہو گئی ہے کہ نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ فوج کے نزدیک بھی یہ بات ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال ہو رہی تھی اور انھوں نے اب اس بات کا برملا اظہار کر دیا ہے کہ ان کے نزدیک اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔اس پریس کانفرنس کے بعد سازش اور غداری کے بیانیہ کی اب حقیقت کھل گئی ہے اس حوالے سے کچھ تاخیر ضرورہوئی ہے اور فوج کا اس واضح انداز میں موقف اسی وقت آنا چاہیے تھا جب یہ بیانیہ شروع کیاگیا تھالیکن بہرحال دیر آید درست آید۔ماضی سے لے کر حال تک ملک کی سیاست میں اور اقتدار کی جنگ میں فوج کے کردار کا ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے یہ بھی درست ہے کہ وطن عزیزمیں کئی بار فوج نے سویلین حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک میں مارشل لاء کے طویل ادوار رہے ایسے میں جو سیاسی رویئے پنپ چکے وہ بلاوجہ نہیں قرار دیئے جا سکتے لیکن بالآخر پاک فوج کی قیادت کی جانب سے اب جو واضح پیغام دیا گیا ہے اس کے بعد عساکر کے متعلق جو سیاسی رویئے چلے آرہے تھے انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور آئندہ سے انتخابی نتائج سے لے کر حکومت سازی اور کسی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی و ناکامی جیسے حکومتی اور سیاسی امور میں پاک فوج کا نام لینے کا عمل اب مکمل طور پر ختم ہو جانا چاہئے پوری دنیا میں کہیں بھی سیاسی ہار جیت میں عسکری مداخلت کا الزام نہیں لگایا جاتا یہ صرف ہمارے ہی ملکی سیاست کا دستور رہا ہے کہ ہر سیاسی حرکت میں سے فوجی اثر ورسوخ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور سازشی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں پاک فوج کی قیادت کی جانب سے واضح طور پر ایک موقف اختیار کرنے کے بعد یہ سلسلہ اب بند ہو جانا چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو اپنی جدوجہد اپنے بل بوتے پر عوام کی حمایت اور سیاسی طاقت سے کرنے کی ضرورت ہے اپنی ناکامیوں پر رنگ آمیزی اور خیالی اسباب پر تکیہ کرنے کے حالیہ دنوں کے سیاسی واقعات اور الزامات کی ھندیا اب بیچ چوراہے پھوٹ چکی ہے ۔نیز یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ باہم معاملات کے سیاسی حل کے بعد فوجی قیادت سے رجوع کس کی مجبوری تھی جب تک ملک کے سیاسی رہنما اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی ملک میں سیاسی بیانیہ اور جمہوریت و پارلیمانی نظام کی مضبوطی سوالیہ نشان ہی بنا رہے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک سنہرا وقت ہے کہ فوج خود کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی بقاء جمہوریت میں ہے یہ بذات خود ایک واضح بیان ہے کہ فوج بالائے جمہوریت اقدامات میں ہر گز دلچسپی نہیں رکھتی ماضی کے مقابلے میں یہ موقف بہت بڑی تبدیلی ہے کوشش کی جائے کہ سیاسی رہنما ء بھی اب اپنی کامیابی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنے کی بجائے جمہوری طرز سیاست اپنائیں فوج کو اپنی آئینی کردار ادا کرنے دیا جائے اور سیاستدان اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟