رمضان اور مامتا کا امتحان

زندگی کی تیزرفتار کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وقت کے گزرنے کی خبر ہی نہ رہے۔ بارہ مہینوں کاسال جیسے ہفتوں کی طرح گزر جاتا ہے ۔ ماں کی یاد کب دل سے محو ہوسکتی ہے ۔رمضان کے مہینے میںتو ان کی یاد اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ کتنی محنت اور محبت سے سحروافطارکی مشقتیں برداشت کرلیا کرتی تھیں۔ان کے ہاتھ کے کھانوں کا ذائقہ آج بھی نوک زبان کو ازبر ہے ۔ کھانا یوں تو انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے ۔صبح ناشتہ کیا تودوپہر کو پھر بھوک لگ گئی،دوپہر کا کھانا ہضم کیا توپھر شام کو کچھ کھانے کو جی مچلنے لگا۔کل کیاپکائیں اور کیا نہ پکائیں رو زکا مسلہ۔خاتون خانہ کایہ سوال توہر گھرکا ایک ایسا سوال ہے کہ جسے روز حل کرنا پڑتاہے۔اس سوال کاجواب بھی گھر کا ہرفردمختلف دیتا ہے۔یہ مسئلہ رمضان میں خاصہ گھمبیر ہوجاتا ہے ،کیونکہ یہ سوال کہ کل کیا پکائیں ،رمضان میں نئی صورت اختیار کرلیتا ہے اب سوال یوں ہوتا ہے کہ ”کل کیاکیا پکائیں ”بہرحال خاتون خانہ کوسب گھر والوں کی فرمائیشوں کا خیال رکھنا پڑتاہے۔روزے بھی پھر گرمی کے۔کچن کی تین چار گھنٹوں کی یہ مصروفیت کوئی عام سی مصروفیت تو ہوتی نہیں ،مگر خاتون خانہ کو یہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔افطار کے وقت دسترخوان بھرا بھرا نہ ہوتو بھی کسی کواچھانہیں لگتا۔بازار سے بھی کتنی چیزیں لائی جائیں ،بازار کی چیزیں ایک تو حفظان صحت کے مطابق نہیں ہوتیں دوسرا ان کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے ،اس لیے گھر میں خاتون خانہ کو یہ کشٹ اٹھانا پڑتا ہے اور دسترخوان کا حجم بڑھانے اور گھروالوں کا شکم سیر کرنے کے لیے اس گرمی اورمشقت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔روزے کی حالت میں بازار میں پڑی ہر چیز پر جی مچلتا ہے۔عموماًگھر کا ہر فرد اپنے منہ کے ذائقے کی کوئی نہ کوئی چیز ضرور لے آتا ہے۔افطاری کی تیاری سے زیادہ مشکل مرحلہ سحری کی تیاری ہوتا ہے۔اگرچہ سحری میں افطاری جیسے لوازمات نہیں ہوتے لیکن آدھی رات کو جاگنا جب سب گھر والے گہری نیند سورہے ہوتے ہیں ایک مشکل کام ہوتا ہے۔چائے بنانا،سالن گرم کرنااور سب سے بڑھ کر پراٹھے پکانا۔ماضی میں پراٹھے ہمارے عام ناشتوں کا حصہ تھا لیکن زندگی کے بدلاؤ میں اب پراٹھے صرف چھٹی والے دن یاپھررمضان کی سحری تک محدود رہ گئے ہیں۔یوں بھی پراٹھے بناناکوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ میرے نذدیک یہ ایک مکمل آرٹ ہے ۔پراٹھا لذیذ بھی ہواور جیومیٹری کی حوالے سے بھی مکمل شیپ میں ہو، تو یہ فن آتے آتے آتا ہے۔یہ فن سراپامامتا کی دین ہے۔ماں چاہتی ہے کہ اس کے کنبے کے افراد سیر ہوکر کھائیں ۔سحری کے وقت ماں کے ہاتھوں سے نکلنے والی والی ٹھپاٹھپ کی آواز میں کتنی محبت ہوتی ہے کہ جب وہ پراٹھے کو گول دائرے کی شیپ میں اپنے ہاتھوں سے بنارہی ہوتی ہیں ۔سحری کے وقت سب سے پہلے جاگنے اور سحری بنانے والی ماں سب کو سحری کرواکر آخر میں سحری کرتی ہیں۔کیایہ دنیا کاسب سے پرخلوص اور اپنی ذات سے بالاتر ہونے والا جذبہ نہیں ۔ جنت کہ جس کے حصول کے لیے کیاکیا کشٹ اٹھانے پڑتے ہیں۔اللہ کی ذات کو سمجھنا انسان کے بس کا روگ نہیں،مگر خدا بھی انسان سے اپنی محبت کی مثال ماں کی محبت سے دیتاہے گویا محبت کا یہ حوالہ کائنات کا سب سے عظیم حوالہ ہے ۔آج کے اس جدید دور میں یوں بھی ذائقے زیادہ ہوگئے ہیں۔پہلے چندایک ڈشیں ہی ہوتی تھیں کہ جن پر روزمرہ زندگی چل جایا کرتی تھی ۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اور فوڈ چینلزکی آمد کے بعد تو ہمارے دسترخوانوں پر مقامی کھانوں کے علاوہ دیگر ممالک کے کھانے بھی سجنے لگے ہیں۔ماں کے لیے
ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
والی عجیب صورتحال ہے کہ اس نے ٹی وی چینل پر سکھائے جانے والے کھانوں کو دیکھنا ہی نہیں بلکہ اپنے باورچی خانے کی ”لیبارٹری ”میں اس کا تجربہ بھی کرنا ہے اور اگر یہ تجربہ ذائقے کے معیار پر کھرا اترتا ہے تو جناب ایک ڈش کا اور اضافہ ہوگیا کہ جس کی گھروالے فرمائش کرسکتے ہیں۔اگرچہ افطار اور سحر کی تیاری ماں کی ذمہ داری ہے لیکن گھر کے دیگرافراد کو بھی ماں کی مددکرنی چاہیئے ۔اس سے ایک تو ماں کو سہولت مل سکتی ہے دوسراروزے کے سولہ گھنٹوں کوگزارنے کاایک آسان طریقہ بھی ہے ،تیسرایوں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے سے گھروالوں کے درمیان محبت کا رشتہ مزید مضبوط ہوتاہے۔اور سب سے بڑی بات جس کا کوئی نعم البدل نہیں وہ ہے ماں کی دعا۔ماں کی دعا ایک ایسا اسم اعظم ہے کہ جس کو میسر ہوگیا وہ خود مستغنی ہوگیا۔رمضان کا مہینہ تو ہے ہی ثواب کمانے اور دعائیں سمیٹنے کا مہینہ،تو کیوں نہ اس ہستی کی دعالے لی جائے کہ جس کے قدموں تلے خود اللہ نے جنت رکھ دی ہے۔میرے خیال میں روزہ دار ماں اس ماہ رمضان میں سب سے زیادہ ثواب کی مستحق ٹھہرتی ہیں کہ وہ اپنے روزے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی فرمائشوں کوخندہ پیشانی کے ساتھ پوری کرتی ہیں،تو پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ ”اے ماں تجھے سلام ”

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت