آپ ہی اپنی اداوں پہ غور کیجئے

ہمارے ہاں حکومت کی تبدیلی کے رولوں اور بیرونی مداخلت کے شور سے بنی فضا میں سپر طاقت امریکہ نے ہمارے پڑوس میں موجود اپنے سیاسی تجارتی اور مفاداتی معشوق کے لاڈ اٹھاتے ہوئے ایک ایسے مشترکہ اعلامیہ کے اجرا پر جی جان سے اتفاق کرلیا جسے نرم سے نرم الفاظ میں اس ملک کی توہین قرار دیا جاسکتا ہے جس نے اپنی بساط سے بڑھ کر امریکہ کا ساتھ دیا اور بساط سے بڑھ کر نقصان بھی اٹھایا ، امریکیوں نے غیر سنجیدگی کہیں یا طوطا چشمی اس کا مظاہرہ پہلی بار تو نہیں کیا پاک امریکہ تعلقات کی ساڑھے سات دہائیوں کی تاریخ کے اوراق پھرول کر دیکھ لیجے ایک ایک صفحہ پر امریکہ بہادر کی کج ادائیوں کا ”رمباناچ”دکھائی دے گا ، کڑواسچ یہ ہے کہ گیارہ اپریل کا امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ خطہ کے زمینی حقائق’ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم’ مقبوضہ کشمیر میں جاری جنگی جرائم اور بھارت کے اندر اقلیت میں شمار ہونے والی مذہبی برادریوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کی پردہ پوشی کی ایک بھونڈی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اعلامیہ مشترکہ سیاسی اور تجارتی مفادات کے حامل دو ملکوں کا من تورا حاجی بگویم تو مرا ملا بگووالی مثال کے مصداق ہے۔ اس اعلامیہ میں امن عالم اور علاقے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جدوجہد میں 80ہزار انسانوں اور لگ بھگ چار ساڑھے چار سو ارب اڈلر کا معاشی نقصان برداشت کرنے والے پاکستان کے خلاف جو الزامات عائد کئے گئے ان کا نہ صرف فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت تھی بلکہ اعلامیہ جاری کرنے والے ممالک کو آئینہ بھی دکھایا جانا چاہیے تھا۔ جس وقت یہ اعلامیہ جاری ہوا پاکستانی وزارت خارجہ حکومت کے خاتمے کی وجہ سے اپنے سربراہ سے محروم تھی مگر سیکرٹری خارجہ اور دفتر خارجہ نے اس امر کو مدنظر کیوں نہ رکھا کہ حکومتوں کی تبدیلی کے عمل میں وزارتوں کے ذمہ داران کے فرائض ختم نہیں ہو جاتے۔ اس رپورٹ میں صاف صاف لکھا ہے کہ داعش کے خراسانی چیپٹر کو بھارت سے نہ صرف افرادی قوت ملی بلکہ بعض مالیاتی ادارے منی لانڈرنگ میں شامل رہے اس رپورٹ پر چند دن سوال اٹھائے گئے لیکن پھر قبرستان جیسی خاموشی چھا گئی کیوں ؟ اس کی واحد وجہ امریکہ بھارت تجارتی مفادات تھے اور چین کے بڑھتے معاشی پھیلائو کو روکنے کی امریکی خواہش جس میں بھارت اس کا ہمنوا ہے۔ اصولی طور پر دفتر خارجہ کو اس امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ کے جواب میں عالمی برادری کے سامنے بھارت کے گھنائونے کردار کا پردہ چاک کرتے ہوئے دنیا کو بتانا چاہئے تھا کہ5اگست2019 سے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کئے گئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے کس درندگی کے ساتھ نہتے کشمیری مردوزن کو توسیع پسندانہ عزائم کا رزق بنایا اور اس عرصہ میں خواتین کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے 117 واقعات کی کسی بھی سطح پر تحقیقات نہیں کروائی گئیں۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے انہیں بتایا جانا تھا کہ امریکہ بھارت اعلامیہ میں پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں بلکہ یہ اعلامیہ بھارت کے مجرمانہ طرزعمل’ خطے میں اس کی جانب سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی اور دوسرے جرائم کی پردہ پوشی کی ایک کوشش ہے۔
ہماری رائے میں اب بھی وقت ہاتھ سے نکل نہیں گیا، دفتر خارجہ کو گیارہ اپریل کے بھارت امریکہ اعلامیہ کے ایک ایک نکتہ کا مفصل جواب دینا چاہئے۔ جمہوریت’ انسانی حقوق اور قوموں کے حق خودارادیت کا چیمپئن ہونے کے دعویدار امریکہ سے سوال کیا جانا چاہئے کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کے نامناسب برتائو پر ‘خاموشی کیوں اختیار کی گئی۔ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے ملک کے وقار پر حملہ کے مترادف اعلامیہ جاری کرنے کا کیا مقصد تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان شکوہ کرتے ہیں کہ اقوام کی برادری کو جمہوریت کا سبق پڑھانے والی سپریم طاقت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے باشندوں جتنی اہمیت کیوں نہ دی کیا نظرانداز کئے جانے کی یہی دو وجوہات ہیں کہ کشمیری مسلمان ہیں اور ان کے مادر وطن پر بھارت قابض ہے جہاں عالمی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی180ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری ہے؟ بادی النظر میں کشمیری مسلمانوں کا امریکہ سے شکوہ اور سوال بجا طور پر درست ہے۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو راتوں رات آزادی دلوانے کے لئے امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی پرجوش تھی اور دونوں علاقوں کے لوگوں کی حمایت سیاسی سے زیادہ مذہبی بنیادوں پر تھی حالانکہ سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے کو غیرمذہبی سوچ کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح 5 اگست 2019کے بھارتی اقدام کا بھی سلامتی کونسل نے اس طرح نوٹس نہیں لیا جو اس کی ذمہ داری بنتی تھی۔ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کے کردار کا دنیا اعتراف کرتی ہے۔11اپریل کو جاری ہونے والے امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ کے تین دن بعد امریکی پینٹاگون کے ترجمان نے اپنے تئیں پاکستان کی اشک شوئی کے لئے پاک امریکہ تعلقات مشترکہ مفادات اور عالمی و علاقائی امور پر دونوں کے یکساں موقف کے حوالے سے میٹھی میٹھی باتیں ضرور کیں لیکن انہوں نے بھی اس امر کی وضاحت نہیں کی اگر وہ درست کہہ رہے ہیں تو امریکہ بھارت اعلامیہ کو کیا سمجھا جائے؟ بہرطور وزارت خارجہ کے ذمہ داران کو مکرر اس معاملے کی جانب متوجہ کرتے ہوئے یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ تاخیر سے ہی سہی’ گیارہ اپریل والے امریکہ بھارت اعلامیہ پر دوٹوک موقف اپنانے کے ساتھ بھارت کے امن دشمن اور توسیع پسندانہ کردار سے عالمی برادری کو آگاہ کیا جائے تاکہ عالمی برداری اس نام نہاد عظیم جمہوریہ کے گھنائونے کردار سے آگاہ ہوسکے۔ مکرر عرض ہے گیارہ اپریل کے امریکہ بھارت اعلامیہ کے بے رحم پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے اور یہ کام دفتر خارجہ کو ہی کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین