مشرقیات

انجام گلستان کیا ہوگا؟کسی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ،جواب دہ حلقے تک تقسیم کا شکار ہو کر ہمارے کسی کام کے نہیں رہے بالکل ایسے ہی اس ملک وقوم کے اداروں کے کرتا دھرتا بھی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے میں جتے ہوئے ہیں۔معاشرے میں یہ خطرناک قسم کی تقسیم صرف ایک آدھ طبقے تک محدود رہتی تو کوئی بات نہیں تھی یا پھر تمام طبقات کا احاطہ کرنے کے باوجود یہ اختلاف کا وہ نمونہ پیش کر تی جسے معاشرے کا حسن یا رحمت قرار دیا گیا ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔تما م مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اختلاف رائے کو برداشت کیا ہی نہیں جاتا ،ادھر آپ کسی بات پر اختلاف کریں ادھر کوئی خدائی فوجدار آپ کو خاموش کرانے کی پلاننگ کرنے لگتاہے، یہاں تک کہ اس ملک کے اداروں کی سرپرستی میں بھی اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے باقاعدہ اور بے قاعدہ کارروائیوں کی آزادی دی گئی ہے۔ اس روش کے ہوتے ہوئے ہم کیسے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کے بعد اپنی زندگی آزادی سے جی سکتے ہیں؟فرد سے جینے کی یہ آزادی چھن جائے تو پھر وہ اپنے معاشرے کو آزاد کہہ سکتاہے ،نہ ہی خود کو آزاد شہری ،جس کے بعد معاشرہ ان ہی عناصر کے ہاتھوں میں یرغمال ہوجاتا ہے جو اسے تقسیم کرکے اپنی رٹ برقرار رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں ،آپ تاریخ برصغیر پڑھیں، انگریزوں کی ”تقسیم کرواور حکومت کرو” کی پالیسی کو بڑی خوبی سے ہمارے ہاں اپنایا گیا ہے، ایک وقت ہم نے وہ بھی دیکھا جب ایک ہی مقصدکے لیے ایک ہی وقت میں درجنوں تنظیموں نے معاشرے کو اپنی خدمات پیش کرنی شروع کر دیں تھیں،یہ معاشرتی تقسیم کی وجہ سے ہی ممکن ہوا سب کو اپنا الوسیدھا کرنے کے لیے اس منقسم معاشرے سے افرادی قوت اور مادی وسائل مل جاتے ہیں اور یوں ہم اسی قو ت کے بل بوتے پر یرغمالی بن کر زندگی گزارتے ہیں،اپنے معاشرے کا بغو ر جائزہ لیں تو بدمعاشی کے کلچر کی قانون پسندی کے مقابلے میں زیادہ توقیر کی جاتی ہے یہاں تک کہ ہمارے قانون ساز اداروں میں بھی اس بدمعاشی کے کلچر کے نمونے دیکھے سنے جاتے ہیں ،ابھی کل پرسوں آپ نے پنجاب اسمبلی میں زور زبردستی سے حکومت حاصل کرنے کے لیے ہونے والی مشق دیکھ ہی لی ہوگی،یہی وہ سبق ہے جو گلی گلی پڑھایا جا رہاہے اور ہر گلی میں اس کے مظاہرے بھی ہم آئے رو ز دیکھتے ہیں۔مثل مشہور ہے ‘جیسی روح ویسے فرشتے’اور یہ مثل ہم پر اس لیے صادق آتی ہے کہ ہماری روحانی ترقی کو دیکھتے ہوئے ہی ہمیں ایسے فرشتے سونپے گئے ہیں جو ہمیں تیز دھار کرنے کے تمام طریقے جانتے ہیں ،ان فرشتوں کے طفیل اب ہم دو دھاری تلوار بن چکے ہیں جو موت پن کر خود ہم پر ہی لٹک رہی ہے۔معاشرے کو ایک کرنے کی خواہشمند قوتیں ان فرشتوں کے مقابلے میںپسپا کیوں ہیں؟

مزید پڑھیں:  اسرائیل ایران کشیدگی