اُسے کیوں نکالا؟ ایک عالمگیر سوال

واشنگٹن سے لندن ،ڈنمارک سے ٹورنٹو ،خیبر سے کراچی تک گلی گلی نگرنگر ایک سوال زباں زد عام ہے ”اُسے کیوں نکالا”؟اب یہ ایک قومی نہیں عالمگیر سوال بن چکا ہے ۔مغرب اور یورپ کی مصروف زندگی میں ہزاروں لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ کسی چوک اور شاہراہ پر اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے کتبوں کے ساتھ نکل کریہ سوال پوچھتے ہیں ۔وہ دیارِ غیر کے چوکوں کو لبرٹی لاہوراور باغ جناح کراچی بناتے ہیں۔خود عمران خان بھی پشاور سے کراچی تک ہجوم بے کراں کے آگے کھڑا ہوکر یہ نہیں پوچھتا کہ مجھے کیوں نکالا بلکہ جستہ جستہ کہانی بیان کرکے بتاتا ہے کہ” مجھے یوں نکالا”۔”یوں ” نکالا کی کہانی ابھی پوری طرح بیان بھی نہیں ہوئی کہ دنیا بھر کے پاکستانی اس دعوے پر مشتمل کتبے اُٹھائے میدان میں آگئے ہیں کہ” باخبر ہوں اسی لئے احتجاج کررہاہوں”۔لوگ کہانی سننے سے پہلے لفافہ دیکھ کر مضمون بھانپ گئے ہیں۔جنرل ضیاء الحق کی سیاسی چھتری تلے قائم ہونے والی غیر جماعتی اسمبلی سے محمد خان جونیجو نام کا جمہوری کردار اُبھرا ۔جنرل ضیاء الحق کے پاس کئی بہتر متبادل آپشن موجود تھے جن میں الٰہی بخش سومرو،ظفراللہ جمالی اور پیپلزپارٹی سندھ کے صدر غلام مصطفی جتوئی بھی شامل تھے ۔جنرل ضیاء الحق نے بالکل اسی طرح ایک مرنجان مرنج کردار کو چنا جس اصول اور قاعدے کے تحت وہ خود ذوالفقار علی بھٹو کا انتخاب قرارپائے تھے۔محمد خان جونیجو کچھ عرصہ تک جنرل ضیاء کی اُنگلی پکڑ کر چلتے رہے مگر اچانک انہوںنے اعلان کیا کہ قوم دسمبر تک مارشل لاء کی لعنت سے نجات پائے گی۔افغانستان کے معاملے پر جنیوا معاہدے کا مرحلہ آیا تو جنرل ضیا اپنا ایک ایجنڈا ذہن میں بسائے ہوئے تھے امریکیوں کے پاس اپنا ایجنڈا تھا ۔محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا ء کے ایجنڈے کو کوڑے دان میں پھینک کر امریکہ کا ایجنڈا اپنالیا اور اس کا نتیجہ افغانستان میں خانہ جنگی کے ایک نئے دور کی صورت میں نکلا ۔جنرل ضیاء گلہ گزار ہوئے کہ وہ امریکیوں سے بہت سی باتوں پر اختلاف کرکے انہیں اپنے ایجنڈے سے قریب لارہے تھے مگر ان کے اپنے تراشیدہ سیاسی چہرے نے ہار مان کر غیروں کا ساتھ دیا ۔اسی دکھ کے ساتھ انہوں نے اپنے بنائے ہوئے ریت کے گھروندے کو ایک دھکے سے توڑ کر رکھ دیا ۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے پاکستانیوں کی اکثریت میں ایک غیر محسوس ڈپریشن کو جنم دیا تھا ۔لوگ ووٹ دے کر اس ڈپریشن کو نکالنا چاہتے تھے ۔اکثریت کے یہ تیور بھانپتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے طاقت کے تواز ن کی سوچ اپنا کر اسلامی جمہوری اتحاد بنایا ۔میاں نوازشریف بے نظیر بھٹو کا متبادل بنا کر پیش کئے گئے ۔پنجاب میں ان کی پزیرائی بڑھتی چلی گئی ۔یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جو انتخابات منعقد ہوئے ان میں اسلامی جمہوری اتحاد حکومت سازی کی پوزیشن میں آگیا اور یوں میاں نوازشریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے ۔بات تھوڑی دور ہی نکلی تھی کہ میاںنوازشریف کی بھارت پالیسی سمیت کئی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ سے ان کا اختلاف پیدا ہوا۔یہ اختلاف گھٹتا بڑھا رہا مگر ختم نہ ہوا۔اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ گلہ رہا کہ جب بھی انہوںامریکی دبائو کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی کوشش کی سیاسی حکمران ان کے پیچھے سے ہٹ کر امریکہ کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ماضی قریب کے دور ادوار میں میموگیٹ اور ڈان لیکس پر اسٹیبلشمنٹ کا گلہ یہی رہا کہ سویلین حکمران اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے مقابل عالمی اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں اچھا بننے کی خاطر ان سے جاملے۔ایسے میں امریکہ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے معاملات طے کرنے کی صلاحیت نہ صرف متاثر ہوئی بلکہ امریکہ کا رویہ زیادہ سخت ہوگیا۔اس کہانی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب دنیا میں یہ تاثر عام ہوا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں ۔اس میں کتنی صداقت تھی مگر اس تاثر نے امریکہ اور بیرونی قوتوں کے لئے خاصی مشکل کھڑی کئے رکھی جنہیں اسلام آباد اور راولپنڈی میں الگ الگ کانا پھوسی کی عادت ہو چکی تھی اور اس سے دونوں میں غلط فہمیاں اور شکوک جنم لیتے تھے اور پھر اس کا انجام ناخوش گوار واقعات پر ہوتا تھا ۔اس بار امریکہ دبائو ڈالتا رہا تو ایک سویلین حکمران سارا دبائو برداشت کرکے اسٹیبلشمنٹ سے دو قدم آگے کھڑا نظر آتا ہے ۔اس سے اسٹیبلشمنٹ کی زیادہ بہتر انداز سے معاملات طے کرنے کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہورہا تھا ۔فوجی اڈوں سمیت ہر معاملے پر سویلین حکمران بیرونی دبائو کا ہرتیر اپنی چھاتی پر سہتا رہا مگر ایک وقت آیا جب اسے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ماضی کے قطعی برعکس اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو کر غائب ہوچکی تھی ۔اس بار سویلین حکمران ڈان لیکس اور میمو گیٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔اسی لئے دنیا بھر کے پاکستانی پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اُسے کیوں نکالا؟
ایسے ہی کسی موقع پرغالب نے کیا خوب کہا ہے
قتل ِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر تیرے عہدسے آگے تو یہ دستور نہ تھا

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں