ہر پیدا ہونے والا اپنا رزق لے کر آتا ہے

ابو سعید حسین کہتے ہیں:’’میرے پڑوس میں ایک آدمی رہتا تھا، جس کے بہت سارے گھر تھے اور وہ بہت ہی خوشحال تھا۔ اچانک اس کے حالات بدل گئے اور ساری دولت ختم ہوتی چلی گئی۔ اس کے اہل خانہ میں بیوی کے علاوہ چار بیٹیاں بھی تھیں اور تنگی کے اسی زمانے میں اس کی بیوی حمل سے بھی تھی۔آگے کی کہانی اُسی پڑوسی کی زبانی ملاحظہ کیجئے!

’’میری بیوی درددِزہ کی تکلیف میں ایسے زمانے میں مبتلا ہوئی، جب کہ میں اسباب و وسائل کے اعتبار سے بالکل کنگال تھا۔ ظاہر ہے اس لیے مجھے کوئی نہ کوئی تگ و دو تو کرنی پڑتی، اس لیے میں رات کی تاریکی میں ہی اٹھ کھڑا ہوا اور نہروان کے پل کی طرف نکل گیا کہ وہاں کے گورنر سے اپنی تکلیف کو دور کرنے کی درخواست کروں، کیوں کہ گورنر سے میرے گہرے مراسم تھے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے سرکاری نوکری دے دے، تاکہ اس سے آمدنی کی کوئی صورت بن جائے اور میں اپنی بیوی بچوں کا پیٹ بھر سکوں۔

میں وہاں ایک جگہ پہنچا،اس وقت سورج نصف النھار پر طواف کر رہا تھا۔مسلسل چلنے کی وجہ سے طبیعت میں تکان بھی تھی، اس لیے ایک سبزی فروش کی دکان کے قریب میں آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا۔اسی دوران ایک ڈاکیا آیا، اس کے ہاتھ میں ایک سرکاری تھیلا)بریف کیس(تھا۔ وہ اس نے زمین پر رکھا اور سبزی والے سے کہا:
’’فلاں فلاں چیز دے دو!

وہ اسے دے دی گئی،اس نے کھایا اور اس کی قیمت ادا کی۔ پھر اس نے وہ سرکاری تھیلا)بریف کیس( کھولا اور اس میں لوگوں کے نام بھیجے گئے خطوط کو الگ الگ کرنے لگا۔ میری نظر ایک خط پر پڑی جس پر میرا نام،کنیت،پتا وغیرہ درج تھا، لیکن میں اس کے بھیجنے والے کو نہ جان سکا کہ وہ کون ہے؟
میں نے اُس ڈاک رساں سے کہا:
’’بھائی! یہ خط تو میرا ہے۔‘‘
ڈاکیا:’’تمہیں معلوم ہے تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا:
’’ جی ہاں ! میں صحیح کہہ رہا ہوں۔ بغداد پہنچ کر تم اس گھر والے کا پوچھو گے تو وہ تمہیں نہیں ملے گا،کیوں کہ وہ اس وقت تمہارے سامنے ہے۔‘‘
ڈاکیا: کیا یہاں کوئی آدمی ہے جو تمہیں پہچانتا ہو؟‘‘
میں نے کہا:’’جی ہاں! یہاں کے گورنر۔‘‘
ڈاکیا:’’مجھے ان کے پاس لے چلو!‘‘
میں اسے لے کر گورنر ہائوس پہنچا۔گورنر نے مجھے دیکھتے ہی حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا:
’’کیا چیز تمہیں یہاں ہمارے پاس کھینچ کر لے آئی؟‘‘
میں نے کہا:
’’ اللہ تعالیٰ آپ کو عزت دے!بات چیت کرنے سے پہلے یہ بتائیے کہ میں کون ہوں، میرا نام کیا ہے اور بغداد میں میرا گھر کہاں ہے؟‘‘
گورنر نے اس ڈاکیے کے سامنے کہا:
’’تم فلاں بن فلاں ہو،تمہارا گھر بغداد کے فلاں محلے کی فلاں گلی میں ہے اور تمہارے گھر کا پتا اس طرح ہے۔‘‘
میں نے ڈاکیے سے کہا:’’میری سچائی کا علم ہو گیا یا نہیں؟‘‘
ڈاکیا: ’’جی ہاں!‘‘
گورنر کو میں نے اپنے تمام حالات سے آگاہ کیا اور اس ڈاکیے سے خط وصول کیا تو وہ میرے ایک چچا زاد بھائی کا خط تھا،جس کا انتقال ہو گیا تھا اور اس نے میرے نام ایک وصیت نامہ لکھا تھا،جس میں اس نے میرے لیے وصیت کی تھی اور میرا نام اور بغداد میں موجود میرے گھر کا پتا بھی لکھا تھا۔
ڈاکیے نے مجھ سے کہا:
’’آپ کے چچا زاد بھائی نے مجھے یہ تاکید کی تھی کہ اس کی جائیداد میں سے ایک تہائی حصہ میں نیکی کے کاموں میں خرچ کر دوں اور باقی دو حصے آپ کے حوالے کر دوں، جو تقریباً سات سو دینار کے لگ بھگ بنتے ہیں، لہٰذا یا تو تم خود ہی وہ دو حصے وصول کرنے کے لیے آ جائو، یا پھر اس کی رسید وصول کر لو اور چالیس روز میں’’کرخ‘‘ کا ایک تاجر آئے گا، وہ دینار اس کے ہاتھ بھیج دیے جائیں گے اس سے وصول کر لینا!‘‘
میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ایک ایسی عظیم نعمت مل گئی جس کا وہم و تصور بھی نہ تھا، اس پر میں نے اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کیا کہ یہ محض اسی کا فضل و احسان ہے۔ڈاکیے نے دو سواریاں منگوائیں،ایک پر میں بیٹھا اور دوسرے پر وہ اور ہم دن کے اجالے میں ہی بغداد پہنچ گئے اور وہاں ایک تاجر سے ملے،میں نے تاجر کو اپنی موجودہ پریشانی سے آگاہ کیا:
’’مال کی ضرورت تو مجھے ابھی ہے، کیوںکہ میری بیوی درِزہ میں مبتلا ہے۔‘‘
اُس نے کہا:’’یقیناً تم سچ کہہ رہے ہو‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک تھیلا نکالا اور ہنڈی میں لکھے دینار کے برابر،دینار نکال کر مجھے دے دیے۔
میں جلدی سے بازار پہنچا اور ستو،چینی،تل کا تیل،روٹی سالن اور مٹھائیاں وغیرہ اور اس کے علاوہ وہ تمام ضروری چیزیں جو دردزہ اور ولادت کے بعد طاقت کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور اچھا بستر،عمدہ خوشبو اور کچھ نئے کپڑے،خریدے اور سیدھا گھر کی راہ لے لی۔ میں رات کے آخری پہر میں جب گھر پہنچا تو وہاں محلے کی عورتیں جمع تھیں اور سب کی سب مجھ پر لعن طعن کر رہی تھیں۔

لیکن جوں ہی ان کی نگاہ گھر میں داخل ہوتے مال اور کھانے پینے کے تھیلوں پر پڑی تو دوسرے ہی لمحے ان کی بددعائیں،نیک دعائوں میں بدل گئیں اور خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ اسی دوران بیوی زچگی کے عمل سے فارغ بھی ہو گئی اور الحمدللہ!اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹے کی دولت سے نوازا۔

بیوی بچے اور بیٹیاں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں کہ اتنی اچانک یہ کشادگی ہمارے گھر میں کہاں سے دوڑ آئی۔ میں نے انہیں ہنڈی،میراث اور ڈاکیے کا سارا قصہ سنایا۔ دائی کو بھی اس کی اجرت ہاتھوں ہاتھ دی تو وہ بھی خوش ہو گئی۔ ڈاکیے کو میں نے اپنا مہمان بنا لیا تھا اور اسے بھی دینار میں سے کچھ ہبہ کیے۔

جب میرے گھر کے حالات بالکل درست ہو گئے اور مالی مشکلات بھی دور ہو گئیں تو گھر والوں کو نان نفقے کے لیے کچھ دینار دیے اور اسی ڈاکیے کو ساتھ لے کر ’’دینور‘‘ کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں میرے چچازاد بھائی کی جائیداد وغیرہ تھی۔اس کی تقسیم کا قصہ نمٹایا،جس میں دس ہزار دینار کی خطیر رقم میرے حصے میں آئی۔ میں نے اس کی ہنڈی بنوائی اور واپس اپنے شہر بغداد میں لوٹ گیا۔ وہ دن اور آج کا دن،الحمد للہ میں بڑی خوش حال زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘