مختلف حالات میں ہر انسان کی طبیعت کا خیال رکھئے

مختلف حالات میں ہر انسان کی طبیعت کا خیال رکھئے

زندگی میں لوگوں کے مزاج بدلتے رہتے ہیں خوشی و پریشانی کے درمیان، صحت و بیماری کے درمیان، غنا و فقر کے درمیان، لہٰذا ان تبدیلیوں سے لوگوں کو کسی چیزکو قبول کرنے میں فرق آتا ہے، تو کبھی کوئی آپ سے لطیفہ قبول کر لے گا اور مذاق برداشت کر لے گا وہی شخص پریشانی کی حالت میں قبول نہیں کرے گا، تو غیر مناسب بات ہوگی کہ آپ کسی تعزیت میں اونچی آواز سے ہنسیں مگر یہی ہنسی سیر کرتے وقت اچھی لگے گی، میری اس بات پر سب عقلاء متفق ہیں۔

میرے اس مضمون لکھنے کا اور مقصد یہ ہے کہ جب کسی کے ساتھ بات کرنی ہو تو اس وقت اس کی شخصیت و طبیعت دیکھو، آیا میری بات کو برا محسوس تو نہیں کرے گا یا جب کسی سے معاملہ کرو تو اس کی طبیعت اور مزاج کو دیکھو۔

فرض کے طور پر ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی جس بیوی کا نہ باپ ہے نہ ماں، اور یہ عورت اپنا سامان اکٹھا کر رہی ہے تاکہ اپنے بھائی کے گھر جا کر رہے سامان اکٹھا کرتے ہوئے اس حالت میں اس کی ایک پڑوسن حسب معمول گھر میں ملنے کے لیے آئی تو مطلقہ عورت نے پڑوسی عورت کے آنے پر اس کا اکرام کیا، مثلاً چائے بسکٹ لا کر رکھے، پڑوسی عورت سے مطلقہ نے پوچھا:کل میں نے آپ کو دیکھا کہ کہیں جا رہی تھیں؟

پڑوسی نے کہا ہاں میرے خاوند نے کہا کہ کہیں باہر ہوٹل میں جا کر کھانا کھاتے ہیں، پھر بازار کا کچھ چکر لگایا، کیونکہ میری بہن کی شادی ہے اس لئے شادی کا لباس بھی خریدا اور کچھ زیور بھی خریدا، اور گھر واپس آئے تو خاوند نے دیکھا کہ بچے بور ہو رہے ہیں تو میرے خاوند نے ان سے وعدہ کیا کہ آنے والے ہفتے کو کہیں باہر سیر کے لئے جائیں گے۔ادھر وہ مسکینہ مطلقہ عورت یہ باتیں سن رہی ہے اور اپنے حال کو بھی دیکھ رہی ہے کہ کیسے میں بھائی کے گھر وقت گزاروں گی۔

سوال یہ ہے کہ ایسی عورت کے ساتھ ایسی حالت میں اس طرح کی باتیں کرنا مناسب تھا؟ آپ کی سوچ کیا ہے کہ یہ مطلقہ عورت اس جیسی عورت کے ساتھ بیٹھنا پسند کرے گی؟ یا ایسی عورت کا اپنے گھر میں داخل ہونا پسند کرے گی؟ ہمارا ایک ہی جواب ہو گا…..نہیں…..نہیں۔

بلکہ مطلقہ کے دل میں اس عورت کے لئے نفرت پیدا ہوگی تو اس کا کیا حل ہے؟ کیا ایسی عورت اس موقع پر جھوٹ بولے؟ نہیں بلکہ اس کو چاہئے تھا کہ مختصر لفظوں میں باتیں کرتی، مثلاً ایسے کہتی جب مطلقہ نے سوال کیا تھا تو کہتی کہ ہاں ہم کچھ کام کے لیے گئے تھے پھر بات کو ادھر ادھر گھما لیتی جس سے اس عورت کی پریشانی ہلکی ہو جاتی۔

اب ایک اور مثال سنئے فرض کے طور پر دو دوست ہیں جب وہ سکول سے فارغ ہوئے تو ایک کامیاب ہو گیا اور اچھے نمبروں میں پاس ہو گیا۔ اور دوسرا اچھے نمبروں میں پاس نہ ہوا بلکہ کئی کتابوں میں فیل ہو گیا جس کی وجہ سے کسی کالج میں پڑھائی مکمل نہ کر سکا،کیا آپ کو مناسب لگتا ہے کہ جو کامیاب ہوا ہے وہ اپنے دوست کے گھر جب جائے تو اس کے ساتھ ایسی باتیں کرے کہ مجھے فلاں فلاں کالج میں نوکری مل گئی ہے اور فلاں فلاں سہولت مجھے ملی؟ قطعاً یہ ٹھیک نہیں….تو اس کا حل کیا ہے؟

حل یہ ہے کہ اس کو اس طریقہ سے بات کرے کہ یار میں فلاں کالج گیا ادھر بہت رش تھا اور بہت کم لوگوں کو نوکری ملی، کئی طالب علم ڈر رہے تھے کہ کہیں ان کو مسترد نہ کر دیا جائے…تاکہ دوسرے دوست کو پریشانی نہ ہو۔ ایسے اس کا دوست اس سے متنفر نہ ہو گا بلکہ یہ سمجھے گا کہ یہ دوست میرا خیر خواہ ہے۔

ایسے اگر دو لڑکے ہوں اور دونوں کے باپ مال دار ہوں ایک کا باپ بیٹے کو اچھا خرچہ دیتا ہو اور دوسرا باپ کنجوسی سے خرچ کرتا ہو، اب جس لڑکے کا باپ سخی ہے اپنے ساتھی کو یہ کہے کہ میرا باپ یہ کرتا ہے، وہ کرتا ہے،مجھے یہ دیا وہ دیا،اس بات سے دوسرا پریشان ہو گا۔

اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کی نفسیات کا خیال رکھنے میں ترغیب دی ہے، حدیث میں مروی ہے کہ مجذوم کی طرف زیادہ نہ دیکھو مجذوم وہ ہے جس کو جلد کی تکلیف ہو یہ ایسی بیماری ہے کہ انسان کی جلد بد صورت ہو جاتی ہے، تو غیر مناسب بات ہے کہ آپ اس بیمار کو بار بار دیکھیں کیونکہ اس سے اس کو پریشانی ہوگی۔