تین لاشیں پھانسی پر لٹکا کر کیا سبق دیا گیا؟

تین لاشیں پھانسی پر لٹکا کر کیا سبق دیا گیا؟

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ معتضد باللہ بڑا زیرک اور شجاع و بہادر تھا۔ لڑائیوں میں اس کے کارنامے مشہور ہیں۔ اس نے خلافت کا نہایت بہتر انتظام کیا۔ لوگوں کے دلوں میں اس کا بڑا رعب تھا۔ اس کی ہیبت کی وجہ سے سارے فتنے دب گئے۔ اس کے زمانہ میں امن و رفاہیت اور ارزانی کا دور تھا۔ اس نے بہت سے ٹیکس بند کر دیئے۔ وہ خلافت عباسیہ کی تجدید کی وجہ سے سفاحِ ثانی کہلاتا تھا۔

دولت عباسیہ کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ترکی کے امراء اور افسران فوج تھے۔ عباسی حکومت اس طرح ان کے پنجہ اقتدار میں آ گئی تھی کہ خلفاء تک کو ان کی مرضی کا پابند رہنا پڑتا تھا ورنہ حکومت بلکہ جان تک سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ان کے ہاتھوں رعایا کی جان و مال محفوظ نہ تھا۔ معتضد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ترکوں کا زور توڑ کر سلطنت اور رعایا دونوں کو ان کے پنجہ ظلم سے آزاد کر دیا۔ان کی قوت توڑنے کے لیے اس نے نہایت سخت پالیسی اختیار کی۔ فوجی افسروں کو سرتابی پر زندہ دفن کرا دیتا تھا۔ گو یہ سزا بظاہر سخت معلوم ہوتی ہے، لیکن اس وقت ترکوں کی خیرہ سری جس حد کو پہنچ چکی تھی اس کی اصلاح بغیر اس کے ناممکن تھی۔ اس نے رعایا کے ساتھ عُمال کے ظلم و زیادتی کو نہایت سختی سے روکا اور ان میں عدل و انصاف کے قیام کی طرف پوری توجہ کی۔ اس سختی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اس کے مقربین خاص تک اس کے خوف سے ظلم و زیادتی کی جرأت نہ کرتے تھے۔

ایوانِ عدالت میں امراء عمائد بلکہ خلیفہ تک کے سارے امتیازات اٹھ گئے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونے لگا۔ عدالتوں کی آزادی کا ایک دلچسپ واقعہ کتابوں میں مذکور ہے۔ ایک امیر نے مختلف آدمیوں سے قرض لے رکھا تھا۔ انہوں نے قاضی ابو حازم کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا۔ معتضد کا بھی کچھ قرض اس کے ذمہ تھا۔ اس نے قاضی ابو حازم کے پاس کہلا بھیجا کہ اس شخص کے ذمہ میرا قرض بھی ہے۔ امید ہے کہ دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ میرا قرض بھی عدالت سے دلایا جائے گا۔ قاضی ابو حازم نے جواب میں کہلایا کہ امیر المومنین اپنا وہ قول یاد کریں جو منصب قضا سپرد کرتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ میں نے قضا کا عہدہ اپنی گردن سے نکال کر تمہاری گردن میں ڈال دیا ہے۔اس لیے اب مجھے یہ اختیار نہیں ہے کہ محض دعویٰ پر بغیر کسی شہادت کے کوئی فیصلہ دوں۔ معتضد نے جواب میں کہلایا کہ فلاں فلاں دو ذی عزت آدمی میرے شاہد ہیں، ابو حازم نے پھر جواب میں کہلایا کہ شاہدوں کو عدالت میں آ کر شہادت دینی چاہئے۔ میں جرح کروں گا،اگر شہادت سچی ثابت ہوئی تو قبول کی جائے گی ورنہ جو ثابت ہوگا اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا لیکن قاضی ابو حازم کی جرح کے خوف سے دونوں شاہدوں میں سے کسی نے شہادت نہ دی۔ اس لیے معتضد کا دعویٰ مسموع نہ ہوا۔

اوصافِ جہانبانی کے ساتھ معتضد مذہبی حیثیت سے بھی دیندار تھا۔ فسق و فجور سے اس کا دامن کبھی آلودہ نہیں ہوا۔عباسی عہد میں کم علموں کے عقائد و خیالات پر فلسفہ یونان کا بڑا اثر پڑا تھا۔معتضد خود ایک راسخ العقیدہ خلیفہ تھا۔ اوہام و خرافات کے جتنے وسائل تھے۔سب کو مٹا دیا،چنانچہ منجموں اور قصہ خوانوں کے شوارع عام پر بیٹھنے کی ممانعت کر دی۔ مجوسیوں کے اثر سے مسلمانوں میں آتش پرستوں کی بعض رسمیں رائج ہو گئی تھیں چنانچہ نو روز کے دن وہ بھی آگ جلاتے تھے۔ معتضد نے اس مشرکانہ رسم کو حکماً بند کر دیا۔

مفسر و مؤرخ،علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سیاست کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ معتضد کسی سفر میں جا رہا تھا۔ راستہ میں ایک گائوں پڑا جس میں ککڑی کے کھیت تھے۔ معتضد کے سپاہیوں نے ککڑیاں توڑ لیں۔ کھیت کے مالک نے شور مچایا۔ معتضد کو خبر ہوئی تو اس نے اس کو بلا کر پوچھا کہ تم ککڑیاں توڑنے والوں کو پہنچانتے ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ معتضد نے کہا ان کو پہچان کر بتائو۔ اس نے تین آدمیوں کا بتایا۔ معتضد نے ان کو قید کرا دیا۔ صبح لوگوں نے تین لاشیں پھانسی پر آویزاں دیکھیں۔ اس پر بڑی چہ مگوئیاں ہوئیں کہ ایک معمولی جرم میں پھانسی پر لٹکا دینا بڑی زیادتی ہے۔ ایک شخص نے دبی زبان سے ڈرتے ڈرتے معتضد کو یہ بات پہنچائی تو اس نے کہا کہ ککڑی کے چوروں کو پھانسی نہیں دی گئی ہے، وہ قید ہیں۔ تین قاتل جن پر قصاص واجب تھا، قید تھے۔میں نے راتوں رات ان کو قید خانہ سے منگوا کر پھانسی دلوائی ہے اور فوجی سپاہیوں کو ڈرانے کے لیے مشہور کر دیا کہ چوروں کو پھانسی دی گئی تاکہ ان کو رعایا کے مال پر دست درازی اور زیادتی کرنے کی جرأت نہ ہو اور ان تینوں آدمیوں کو جنہوں نے ککڑیاں چرائی تھیں قید سے نکلوا کر اسے دکھلا دیا۔

اس کی سخت گیری کے ساتھ اس کی نرمی کے واقعات بھی ملتے ہیں۔ ایک مرتبہ چند آوارہ بدمعاش اس کے سامنے پیش کیے گئے،جو فسق و فجور میں منہمک رہتے تھے۔ وزیر نے ان کو سولی پر لٹکانے اور آگ میں زندہ جلانے کا مشورہ دیا۔ معتضد نے کہا تم نے اس سنگدلانہ مشورہ سے میرا غصہ ٹھنڈا کر دیا۔ رعایا حاکم کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس کی اس سے باز پرس ہوگی۔ یہ کہہ کر سزا کے بارے میں وزیر کے مشورہ پر عمل نہیں کیا۔