مال کی کوالٹی پر پورا بھروسہ، خود اعتمادی کا راز

حبیب بھائی نے12فروری1984کو اپنا ایک واقعہ بیان کیا، وہ چند سال پہلے یورپ کے ایک سفر پر گئے تھے۔ اس سلسلہ میں وہ سوئٹزر لینڈ بھی گئے۔ وہاں انہوں نے ایک دکان سے ایک کیمرہ خریدا یہ کیمرہ انہیں ہندوستانی قیمت کے لحاظ سے پانچ ہزار روپے میں ملا۔ انہوں نے کیمرہ لے لیا مگر بعد میں انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے غلطی کی ہے ان کو یورپ سے واپسی میں عمرہ کیلئے سعودی عرب بھی جانا تھا، انہوں نے سوچا کہ سعودی عرب میں یہ کیمرہ تقریباً تین ہزار روپے میں مل جائے گا۔ پھر یہاں میں اس کی مہنگی قیمت میں کیوں خریدوں۔

جب انہوں نے چاہا کہ اس کیمرہ کو واپس کر دیں مگر فوراً خیال آیا کہ جب میں دکان پر جا کر واپسی کے لیے دکاندار سے کہوں گا تو وہ پوچھے گا کہ کیوں واپس کر رہے ہو۔ واپسی کو برحق ثابت کرنے کے لیے مجھے کیمرے میں کوئی نقص بتانا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے ادھر ادھر دیکھ کر یہ چاہا کہ کیمرہ میں کوئی خرابی دریافت کریں تاکہ اس کا حوالہ دے کر اپنی واپسی کو درست ثابت کر سکیں مگر تلاش کے باوجود کیمرہ میں کوئی نقص نہیں ملا۔

مزید پڑھیں:  عمرہ زائرین کو مقررہ 3 ماہ کے اندر اپنے وطن لوٹنا ہوگا، اعلامیہ جاری

تاہم اس کی طبیعت اندر سے زور کر رہی تھی۔ چنانچہ وہ کیمرہ لے کر دوبارہ دکان پر گئے۔ وہاں کائونٹر پر ایک خاتون کھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیمرہ میں نے آپ کے یہاں سے خریدا تھا۔ اب میں اس کو واپس کرنا چاہتا ہوں۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو ان کی توقع کے خلاف خاتون نے واپسی کی وجہ دریافت نہیں کی۔ اس نے صرف یہ پوچھا آپ اپنی رقم ڈالر میں چاہتے ہیں یا ملکی سکہ میں۔ انہوں نے کہا ڈالر میں۔ خاتون نے اسی وقت واپسی کا پرچہ بنا دیا۔

مزید پڑھیں:  سفارتی تعلقات بحال، 9 سال بعد ایران سے معتمرین عمرہ ادائیگی کیلئے سعودی عرب روانہ

وہ اس کو لے کر دوسرے کائونٹر پہ پہنچے۔ وہاں فوراً اس کو مذکورہ ڈالر واپس کر دیئے گئے جیسے کہ رقم اور مال میں اس کے نزدیک کوئی فرق ہی نہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے دکان دار نے کیوں ایسا کیا کہ کچھ کہے بغیر کیمرہ واپس لے لیا اور پوری قیمت لوٹا دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کو اپنے مال کی کوالٹی پر پورا بھروسہ تھا۔ اس کو یقین تھا کہ میرا مال چونکہ معیاری ہے اس لئے ضرور کوئی نہ کوئی اسے خریدے گا۔ خواہ ایک شخص اسے خریدے یا دوسرا شخص۔