موقع محل دیکھ کر لوگوں کے ساتھ برتاؤ کریں

لوگ ہمیشہ اپنی اپنی قدر محسوس کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا آپ محسوس کریں گے کہ بعض لوگ کبھی ایسا کام کرتے ہیں جس سے وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں، مثلاً ایک آدمی اپنے کام سے گھر لوٹا جب گھر میں داخل ہوا اس نے اپنے چاروں بیٹوں کو مصروف پایا۔ پہلا سب سے بڑا بیٹا گیارہ سال عمر والا ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہے۔ دوسرا کھانے میں مصروف ہے، تیسرا کھلونوں میں مصروف ہے،چوتھا سکول کا کام کر رہا ہے۔

جب باپ اندر آیا بآواز بلند سلام کیا….السلام علیکم….کسی بیٹے نے باپ کی طرف نہ دیکھا پہلا ٹی وی میں مصروف و غرق ہے،دوسرا کھلونوں میں،تیسرا کھانے میں،سوائے چوتھے بیٹے کے کہ اس نے جب باپ کی آواز سنی فوراً اٹھ کر باپ کی خیر مقدمی کی اور مسکراتا ہوا آ کر ملا اور باپ کے ہاتھ کو چوما پھر واپس اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

ذرا یہ بتائو ان چاروں میں سے باپ کے نزدیک زیادہ محبوب کون ہوگا؟ ہم سب کا جواب ایک ہی ہو گا کہ وہ چوتھا بیٹا باپ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو گا، اس لئے نہیں کہ وہ چاروں میں سے زیادہ خوبصورت ہے یا زیادہ ذہین ہے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس نے اپنے باپ کی قدر کی ہے کہ باپ میرے نزدیک پڑھائی سے زیادہ اہم ہے۔جتنا آپ نے لوگوں کا اہتمام کیا ان کی قدر کی اتنا لوگ آپ سے محبت کریں گے۔ اس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مد نظر رکھتے تھے ہر شخص کی مشکل کو اپنی مشکل سمجھتے تھے دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھتے تھے۔

ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص مسجد کے دروازے سے داخل ہوکر کہنے لگا:یا رسول اللہ! ایک شخص اپنے دین کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے اس کو اپنے دین کا پتہ نہیں ہے، تو آپ نے اس کی طرف دیکھا کہ دیہاتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ انتظار نہ کرے کہ میں اپنا خطبہ ختم کر لوں، اور اس شخص نے اس وقت اس لئے سوال کیا ہو گا کہ یہ سوال اس کے نزدیک اتنا اہم تھا کہ اس نے خطبہ کے دوران آکر ایسا سوال کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے کے بارے میں اپنی سوچ سے نہیں سوچتے تھے بلکہ دوسرے کی سوچ سے سوچتے تھے،دوسرے کی بات کو سامنے رکھ کر سوچتے تھے، آپ اپنے منبر سے خطبہ کے دوران اترے اور اس شخص کے سامنے بیٹھے اور دین کے احکام سمجھائے حتیٰ کے وہ سمجھ گیا پھر آپ اپنے منبر کی طرف گئے اور خطبہ مکمل فرمایا….اللہ اکبر…سبحان اللہ! کتنے عظیم و حلیم تھے۔

صحابہ کرام نے بھی آپ سے تعلیم حاصل کی، اس لئے صحابہ کرام بھی دوسروں کا اہتمام کرتے تھے اور خوشی اور پریشانی میں شرکت کرتے تھے،حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے جب غزوہ تبوک میں شرکت نہیں کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر وجہ پوچھی تو حضرت کعب نے فرمایا میری کوئی وجہ نہیں تھی میں کہتا رہا کہ کل نکلوںگا…کل نکلوں گا ایسے کہتے کہتے آپ جنگ سے واپس آ گئے۔ آپ نے سب کو منع کر دیا تھا کہ کعب سے کوئی بات نہ کرے پھر ایک مہینہ بعد حضرت کعب کو پیغام بھیجا کہ اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری بھی چھوڑ دے حتیٰ کہ پچاس دن گزر گئے۔

حضرت کعب بہت پریشان رہتے تھے کہتے ہیں کہ میں جب بازار میں نکلتا تو کوئی میری طرف نہ دیکھتا نہ کوئی بات کرتا، پچاسویں رات میں آپ پر وحی اتری کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت کعب کی توبہ قبول کر لی جب حضرت کعب کو خبر ملی تو ان کو یقین نہ آیا، جب حضرت کعب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلنے لگے تو لوگ حضرت کعب کو خوشی سے ملنے لگے، حتیٰ کہ آپ کی مسجد میں آئے اور آپ جیسے ہی اندر داخل ہوئے حضرت طلحہ فوراً اٹھ کر گلے ملے اور خوش آمدید کہا اور خوشی کا اظہار کیا،پھر حضرت کعب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ بھی خوشی سے مسکرا رہے تھے حضرت کعب نے پوچھا، یارسول اللہ!یہ معافی آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے ہے آپ نے فرمایا اللہ کی طرف سے آیتیں نازل ہوئی ہیں۔

دیکھو جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر حضرت کعب کے گلے ملے تو حضرت کعب کو حضرت طلحہ سے محبت زیادہ ہو گئی، حتیٰ کہ حضرت کعب حضرت طلحہ کی موت کے بعد فرماتے اللہ کی قسم ان کا گلے ملنا کبھی نہیں بھولوں گا، حضرت طلحہ نے کیا کیا؟ کہ حضرت کعب کے دل کو اپنے ہاتھ میں لے لیا حضرت طلحہ نے مہارت استعمال کی حضرت کعب کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھا اور ان کی خوشی میں شرکت کی۔

لہٰذا لوگوں کی خوشی اور پریشانی کے شعور و احساس میں شرکت کرنے سے لوگوں کے دلوں میں محبت بڑھتی ہے، مثلاً آپ امتحان کے دنوں میں مصروف تھے اس دوران آپ کے موبائل پر میسج آیا جس میں یہ لکھا ہوا تھا:
سنائو تمہارے امتحان کیسے چل رہے ہیں؟ میں تمہارے لئے بہت دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تمہیں کامیاب کرے تمہارا دوست ابراہیم۔
کیا آپ کے دل میں اس دوست کی قدر نہیں بڑھے گی؟ جی بالکل۔

اگر آپ کے والد بیماری میں ہسپتال میں تھے اور آپ اپنے والد کے ہمراہ تھے اور ذہنی طور پر مصروف تھے، آپ کے ایک دوست نے فون کیا اور آپ کے والد کی حالت پوچھی کہ کیسے ہیں؟ پھر کہا میرے لئے کوئی خدمت ہو تو بتائو؟ آپ نے شکریہ اور دعا کرتے ہوئے فون ختم کیا۔
پھر شام کو دوبارہ فون کیا اور کہنے لگا گھر والوں کو کوئی چیز ضرورت ہو تو بتائو گھر میں کوئی چیز لے کر دینی ہو تو بتائو؟ آپ نے اس کا شکریہ ادا کیا۔
کیا آپ کے دل میں اس دوست کی محبت نہیں بڑھے گی؟ بجائے اس دوست کے ایک اور دوست نے فون کیا اور کہنے لگا، ہم سیر کے لئے نکل رہے ہیں سمندر کی طرف…ہاں بتائو تم بھی چلو گے؟

آپ نے کہا بھائی میرے والد ہسپتال میں ہیں بہت بیمار ہیں میں نہیں جا سکتا، بجائے اس کے کہ یہ دوست آپ سے معذرت کرتا کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ کے والد بیمار ہیں یا کہتا والد کا کیا حال ہے بلکہ اس کی بجائے یہ کہنے لگا: وہ تو مجھے پتہ ہے کہ بیمار ہیں اور ہسپتال میں ہیں مگر ہسپتال میں نرسیں ہیں ڈاکٹرز ہیں تم وہاں کیا کر رہے ہو؟ ہمارے ساتھ آئو اکٹھے مزے کرتے ہیں، یہ بات ہنستے،مزاحیہ انداز میں کرنے لگا، جیسا کہ اس کو کوئی فکر نہیں تو ایسے دوست کے بارے میں آپ کیا سوچیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوست کی قدر آپ کے دل میں کم ہو جائے گی۔جس قدر آپ نے لوگوں کی قدر کی اتنی ان کے دلوں میں آپ کی محبت زیادہ ہو گی اور ان کے دل آپ کے ہاتھ میں آ جائیں گے۔