خلیفہ وقت مسجد نبوی کی توسیع

خلیفہ وقت مسجد نبوی کی توسیع کیلئے طاقت کے زور پر مکان نہ لے سکا

حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ فرمایا تو آس پاس کے بعض مکانات خرید لئے،جنوبی طرف حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مکان مسجد سے متصل تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابو الفضل! مسلمانوں کی مسجد تنگ ہو گئی ہے توسیع کے لئے میں نے آس پاس کے مکانات خرید لئے ہیں آپ بھی اپنا مکان فروخت کر دیں اور جتنا معاوضہ کہیں میں بیت المال سے ادا کر دوں گا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں یہ کام نہیں کر سکتا۔
دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تین میں سے ایک بات مان لیں:
۱۔اسے فروخت کرکے جتنا معاوضہ چاہیں لے لیں۔
۲۔مدینہ میں جہاں کہیں آپ کو اس کے بدلے میں مکان دلوا دیا جائے۔
۳۔یا پھر مسلمانوں کی نفع رسانی اور مسجد کی توسیع کی خاطر اسے وقف کر دیں۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے اس میں سے کوئی بات منظور نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مسئلہ کا حل کسی صورت نہیں نکل رہا ہے تو فرمایا آپ جسے چاہیں فیصل مقرر کر لیں وہ ہمارے اس معاملے کا تصفیہ کرا دے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فیصل بناتا ہوں لہٰذا دونوں حضرات اٹھے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے آپ نے انہیں آتا دیکھا تو ان کے اعزاز میں تکیہ وغیرہ لگوایا اور دونوں بزرگوں کو بٹھایا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بات شروع کرتے ہوئے کہا: ہم دونوں نے آپ کو اپنا فیصل مقرر کیا ہے۔آپ ہمارے درمیان جو فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا۔

حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ابو الفضل! آپ اپنی بات کہئے! حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یہ زمین جس پر میرا مکان ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ ہے۔یہ مکان میں نے بنایا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کی تعمیر میں شریک رہے،بخدا یہ پرنالہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کا لگایا ہوا ہے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بات کہی۔ حضرت اُبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ دونوں اجازت دیں تو میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنائوں؟ دونوں بزرگوں نے کہا جی ہاں سنائیے!

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرے لئے ایک گھر تعمیر کریں جس میں مجھے یاد کیا جائے اور میری عبادت کی جائے چنانچہ جہاں پر مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں منجانب اللہ زمین کی نشاندہی کر دی گئی مگر وہ نشان مربع(چوکور) نہ تھا، ایک گوشہ پر ایک اسرائیلی کا مکان تھا حضرت دائود علیہ السلام نے اس سے بات کی اور کہا:مکان کا یہ گوشہ فروخت کر دو تاکہ اللہ کا گھر بنایا جا سکے، اس نے انکار کر دیا۔ حضرت دائود علیہ السلام نے اپنے جی میں سوچا: یہ گوشہ زبردستی لے لیا جائے، اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آئی: اے دائود! میں نے تمہیں اپنی عبادت گاہ بنانے کیلئے کہا اور تم اس میں زور زبردستی کو شامل کرنا چاہتے ہو یہ میری شان کے خلاف ہے۔ اب میرا حکم یہ ہے کہ تم میرا گھر بنانے کا ارادہ ترک کر دو!

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں جس ارادے سے آیا تھا آپ نے اس سے بھی سخت بات کہہ دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو مسجد نبوی میں لے کر آئے وہاں کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حلقہ بنائے بیٹھے تھے، حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں اگر تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت دائود علیہ السلام کے بیت المقدس تعمیر کرنے والی حدیث سنی ہو تو وہ اسے ضرور بیان کرے۔ حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے۔ ایک اور صحابی نے بھی کہا میں نے بھی سنی ہے۔

اب حضرت اُبی رضی اللہ عنہ حضرت عمرؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:عمر! آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں تہمت دیتے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بخدا اے ابو المنذر! میں نے آپ پر کوئی تہمت نہیں لگائی ہاں میں یہ چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بالکل واضح ہو جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا:چلیے! اب میں آپ کو مکان کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب آپ نے یہ بات کہہ دی ہے تو اب میں بھی یہ کہتا ہوں کہ میرا مکان مسجد کی توسیع کے لئے حاضر ہے میں اسے بلامعاوضہ پیش کرتا ہوں لیکن آپ حکماً لینا چاہیں گے تو نہیں دوں گا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں دوسری جگہ پر بیت المال کے خرچ سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لئے ایک مکان بنوا دیا اور وہ مکان مسجد میں شامل کر کے مسجد کو وسیع کر دیا گیا۔