سلام

سلامتی ہی سلامتی

سلام ایک ایسی عظیم چیز ہے جو جھگڑوں کو ختم کر دیتی ہے۔ سلام آدمی نہ کرے تو برا سمجھا جاتا ہے اور اگر سلام کر لے تو جاہل بھی جھک جائیں گے کہ یہ بڑا اچھا آدمی ہے سلام کر رہا ہے۔اس واسطے فرمایا گیا اگر باہم دشمنیاں بھی ہوں،سلامتی ہی سلامتی عداوتیں بھی ہوں، اگر دشمن کو آپ سلام کریں گے تو دشمنیاں ڈھیلی پڑ جائیں گی۔ وہ وَعَلَیکُم السَلَام کہنے پر مجبور ہو گا۔ جس کا مطلب ہے کہ تمہارے لیے بھی سلامتی ہو۔ جب سلامتی کی دعا دے گا تو جھگڑا اٹھائے گا کیوں؟ خود کہہ رہا ہے کہ اللہ تمہیں صحیح سلامت رکھے تو دعا بھی دے اور اوپر سے جھگڑا بھی اٹھائے؟ اس سلام نے ساری دشمنی ختم کردی ۔اس واسطے حدیث میں فرمایا گیا کہ:
ترجمہ:”سلام کرنے کی عادت ڈالو،خواہ تعارف ہو یا نہ ہو۔”
آج کے زمانے کا تمدن یہ ہے کہ جب تک تیسرا آدمی تعارف نہ کرائے،نہ بول،نہ چال،نہ سلام،نہ کلام،یہ متکبرانہ تمدن ہے۔ یہ اسلام کا تمدن نہیں ہے،اسلام کا تمدن یہ ہے کہ جب ہم میں اور تم میں اسلام کا رشتہ مشترک،اسلامی اخوت اور بھائی بندی پھیلی ہوئی ہے تو کیا ضرورت ہے کہ کوئی تیسرا تعارف کرائے،پہلے سے ہی تعارف حاصل ہے۔ یہ ہمارا بھائی مسلمان ہے۔اس میں اسلام بھرا ہوا ہے۔ ملیں تو یہ انتظار نہ کریں کہ دوسرا مجھے سلام کہے،بلکہ سلام کرنے میں پہل کیجئے اس میں زیادہ ثواب ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ یہودیوں کا سلام انگلیوں سے ہے،نصارٰی کا سلام ہتھیلی سے ہے اور مسلمانوں کا سلام السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ہے۔ یعنی یہود و نصارٰی کا سلام صرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کا سلام ایک مستقل دعا ہے کہ تم پر سلامتی ہو،اللہ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں،برکتیں تم پر نازل ہوں۔ ہر مسلمان دوسرے کو دعا دے۔ اس سے اس کی خیر خواہی اور محبت ظاہر ہوگی۔تعلق بھی مضبوط ہو جائے گا۔ قصہ مشہور ہے کہ کسی آدمی کے سامنے جن آ گیا تو اسے خطرہ لاحق ہو گیا کہ یہ تو کھا جائے گا۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا ماموں جان! سلام۔اس نے کہا بھانجے وعلیکم السلام اور کہا کہ میرا ارادہ تجھے کھانے کا تھا لیکن تونے ماموں کہا اور سلام کہا میرے دل میں رحم آگیا میں نے چھوڑ دیا اب تو آزاد ہے،جہاں چاہے چلا جا،تونے سلام کر کے جان بچائی۔ یہی صورت دشمن کی بھی ہے۔اگر کسی سے پکی دشمنی ہے،آپ کہیں السلام علیکم وہ پسیج جائے گا۔ دشمنی ڈھیلی پڑجائے گی،الغرض یہ بہت بڑی نعت اور عظیم دعا ہے۔
حضرت طفیل کہتے ہیں کہ میں اکثر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بازار جایا کرتا۔ جب ہم دونوں بازار جاتے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جس کے پاس سے بھی گزرتے تو اس کو سلام کرتے،چاہے وہ کوئی کباڑیہ ہوتا،چاہے کوئی دکاندار ہوتا،چاہے کوئی غریب اور مسکین ہوتا،غرض کوئی بھی ہوتا آپ اس کو سلام ضرور کرتے۔ایک دن آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے کہا،چلو بازار چلیں،میں نے کہا:حضرت! بازار جا کے کیا کیجئے گا؟ آپ نہ تو کسی سودے کی خریداری کیلئے کھڑے ہوتے ہیں نہ کسی مال کے بارے میں معلومات کرتے ہیں،نہ مول بھائو کرتے ہیں،نہ بازار کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں،آئیے یہیں بیٹھ کر بات چیت کریں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم تو صرف سلام کرنے کی غرض سے بازار جاتے ہیں کہ ہمیں جو ملے ہم اسے سلام کریں۔(بکھرے موتی)

مزید پڑھیں:  عالمی ایک روزہ رینکنگ میں بابر اعظم کی بادشاہت برقرار