بے کچھ سے سب کچھ تک

بے کچھ سے سب کچھ تک

جو شخص کم فائدہ پر قناعت کرے گا وہ بڑے فائدہ کا مالک بنے گا،یہ ایک ایسا بے خطا اصول ہے،جو اپنے اندر ابدی اہمیت رکھتا ہے،آپ جس معاملہ میں بھی اس کو آزمائیں گے یقینی طور پر آپ کامیاب رہیں گے۔
ایک شخص نے بازار میں چھوٹی سی دکان کھولی۔وہ کپڑا دھونے کا صابن اور کچھ اور چیزیں بیچتا تھا۔ اس کی دکان پر بہت جلد بھیڑ لگنے لگی۔دن کے کسی وقت بھی اس کی دکان گاہکوں سے خالی نہ رہتی۔اس کا راز یہ تھا کہ وہ دو روپے کا صابن پونے دو روپے میں بیچتا تھا۔آدمی اگر چار صابن خریدے تو عام نرخ کے لحاظ سے اس کا ایک روپیہ بچ جاتا تھا۔ایک آدمی نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پونے دو روپیہ اس صابن کی تھوک قیمت ہے۔ دکاندار کو وہ صابن کارخانہ سے پونے دو روپے میں ملتا ہے اور اسی دام پر وہ اس کو گاہکوں کے ہاتھ فروخت کر دیتا تھا۔
اس آدمی نے دکاندار سے پوچھا کہ تم دام کے دام صابن بیچتے ہو۔پھر تم کو اس میں کیا فائدہ ملتا ہے۔دکاندار نے کہا کہ میری دکان پر اتنا صابن بکتا ہے کہ اس کی25پیٹیاں دن بھر میں خالی ہو جاتی ہیں۔ میں ان خالی پیٹیوں کو ایک روپیہ فی پیٹی کے حساب سے25روپے میں بیچ دیتا ہوں، اس طرح ہر روز مجھے25روپے بچ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب آدمی میرے یہاں سے صابن لیتا ہے تو اکثر وہ کچھ نہ کچھ دوسری چیزیں بھی خرید لیتا ہے،یہ فائدہ اس کے علاوہ ہے۔
یہ دکاندار دھیرے دھیرے ترقی کرتا رہا۔ اس کا نفع پہلے25روپے روز تھا۔پھر50روپے روز ہوا۔ پھر وہ100روپے اور200روپے تک پہنچا۔آدمی نے پیسہ بچا کر اپنے ساتھ والی دکان بھی حاصل کر لی اور دونوں کو ملا کر ایک کافی بڑی دکان بنالی،اب اس کا کاروبار اور بڑھا۔ یہاں تک کہ دس سال میں وہ شہر کا ایک بڑا دکاندار بن گیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے امکانات کس قدر زیادہ ہیں۔حتیٰ کہ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ آدمی آج”بے نفع” کی تجارت شروع کرے اور کل زبردست نفع والا تاجر بن جائے۔آج وہ اپنے آپ کو”بے کچھ” پر راضی کر لے اور کل وہی وہ شخص ہو جو”سب کچھ” کا مالک بنا ہوا ہو۔ مگر دنیا کہ ان بے حساب امکانات کو اپنے حق میں بنانے کی لازمی شرط صبر اور عقل مندی ہے۔جس کے پاس صرف بے صبری اور نادانی کا سرمایہ ہو اس کے لئے دنیا کے بازار میں کچھ نہیں۔(رازِ حیات)

مزید پڑھیں:  ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی پی ٹی آئی کومذاکرات کی پیش کش