حضرت جعفر صادق

حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ خلیفہ منصور کے دربار میں

”محمد بن خالد نے مجھے حکم دیا کہ مدینہ منورہ سے حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ کو لے کر خلیفہ منصور عباسی کے دربار میں حاضر ہوں،حکم کی تعمیل کرنے کیلئے میں چل پڑا اور انہیں لے کر واپس بغداد کا رخ کیا۔ جب ہم مقام”نجف” پر پہنچے تو حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی سواری سے نیچے اترے۔اچھی طرح وضو کیا،قبلہ رخ ہو کر دو رکعت نماز ادا کی،اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے۔ اور یہ دعا فرمائی:
ترجمہ: اے اللہ! میں آپ ہی سے مدد چاہتا ہوں اور آپ ہی سے بخشش کا طالب ہوں۔ اے اللہ!میں آپ کے ذریعے اس مقابلے سے حفاظت چاہتا ہوں اور اس کے شر سے آپ کی پناہ کا طالب ہوں۔ اے اللہ! اس سے پہنچنے والے غم کو میرے لیے آسان اور اس کی طرف سے پیش آنے والی دشواری کو میرے تابع فرما دیجئے۔ اور میری چاہتوں سے بھی زیادہ بھلائی نصیب فرما اور میرے اندیشوں سے بھی زیادہ برائی اور ہلاکت سے میری کفایت فرما۔”
اس کے بعد وہ اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گئے۔
خلیفہ جعفر منصور عباسی کو جب اطلاع دی گئی کہ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ پہنچ گئے ہیں اور دروازے پر موجود ہیں تو اس نے فوراً حکم جاری کیا کہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ کے اعزاز میں تمام پردے اٹھا دیئے جائیںاور تمام دروازے کھول دیئے جائیں۔ پھر خلیفہ جعفر منصورخود ہی ان کے استقبال کیلئے باہر نکل آیا۔ عالی شان محل کے بیچوں بیچ ان سے ملاقات کی اور گلے لگایا۔ پھر ان کا ہاتھ تھام کر ان کے آگے تواضع کے ساتھ چلنے لگا، یہاں تک کہ وہ اپنی نشست گاہ پہنچ گئے۔
خلیفہ نے انہیں انتہائی وقار اور احترام کے ساتھ نشست گاہ میں بٹھایا اور والہانہ انداز میں انہیں دعائیں دینے لگا۔ پھر کچھ باتیں پوچھنے کیلئے ان کی جانب متوجہ ہوا:
” آں جناب اس بات سے تو بخوبی واقف ہیں کہ عبداللہ بن حسن کے صاحبزادوں کے ساتھ میرا کس قدر نرمی،محبت اور شفقت والا سلوک ہوتا ہے، مگر اب وہ دونوں مجھ سے چھپتے پھرتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ اپنے تقدس کو پامال کر کے اہل بیت میں کسی ایسے فساد کی بنیاد ڈال دیں کہ جو پھر دوبارہ قائم نہ ہو سکے۔ آپ ذرا مجھے ان دونوں کے بارے میں کچھ بتائیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟
مہربانی فرما کر اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کیجئے!”
حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”میں نے انہیں(محمد اور ابراہیم کو) ایسی حرکتوں سے منع بھی کیا تھا،مگر وہ نہ مانے۔ اس کے بعد پھر میں نے ان سے باخبر رہنا مناسب نہیں سمجھا،لہٰذا مجھے ان کے بارے میں اب کچھ معلوم نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ البتہ جہاں تک میرا تعلق ہے تو اپنے بارے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ کی جانب سے مطمئن ہوں اور آپ ہی کیلئے دعا گو رہتا ہوں اور آپ ہی کی اطاعت کا پابند ہوں۔”
خلیفہ جعفر منصور کہنے لگا:
”آپ نے بالکل سچ فرمایا،لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور خبر رکھتے ہیں جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔مجھے اس وقت تک تسلی نہیں ہوگی جب تک کہ آپ ان کے بارے میں مجھے کوئی اطلاع نہ دیں۔”
حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”امیر المؤمنین!میں آپ کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کرتا ہوں،اس میں آپ کی بات کا جواب موجود ہے۔” پھر آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: یہ پکی بات ہے کہ اگر ان(اہل کتاب) کو نکالا گیا تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے اور اگر بالفرض ان کی مدد کی بھی تو پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے،پھر ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔”یہ سنتے ہی خلیفہ جعفر منصور سجدہ میں گر گیا۔پھر اس نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ سے ان دونوں کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی۔(راحت حاصل کیجئے)

مزید پڑھیں:  سائفر کیس میں شک کا فائدہ ملزمان کو جائے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ