رب کو نہ ماننے والا غیروں کی نظر میں بھی حقیر

رب کو نہ ماننے والا غیروں کی نظر میں بھی حقیر

ویب ڈیسک :ایک رات ابو جعفر منصور نے محفل لگائی اور اس میں عبرت ناک قصے، تاریخی واقعات کے سننے سنانے کا دور چل پڑا۔ ابو جعفر منصور نے اس میں بنوامیہ کے حکمرانوں اور ان کے حالات کا ذکر کیا:
”بنوامیہ خلافت کے فرائض بحسن و خوبی استقامت کے ساتھ انجام دیتے رہے، لیکن جب خلافت ان کی عیش پرست اولادوں کے سپرد ہوئی تو وہاں سے اُموی سلطنت کے زوال کا آغاز ہوا۔ ان کے ناعاقبت اندیش فرزندوں کی فکر اور سوچ صرف یہ تھی کہ کس طرح ان کی شہوتیں پوری ہوں؟ لذتوں کے پورا کرنے کو نہ صرف سلطنت کے کاموں پر بھی اسی کو ترجیح دیتے تھے، بلکہ(العیاذ باللہ) دین اور فطرت کے کاموں پر بھی اسی کو ترجیح دیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کی کھلم کھلا نافرمانیوں اور اس کی ناراضگی کے کاموں میں ببانگِ دہل(کھلم کھلا) داخل ہو جاتے تھے۔
انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ ان کی حکومت پر اگر کوئی آنچ نہیں آ رہی تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے، اور وہ ان سے خوش نہیں ہے۔اموی سلطنت کے یہ اوباش لڑکے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بے خوف ہو کر انہیں خرمستیوں میں مشغول رہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے انتقام کی تلوار نیام سے باہر آئی اور ان کی سلطنت کے پائے ہلنے لگے،جس سلطنت کے زوال پذیر ہونے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے ان کے ہاتھوں سے نکلنے لگی۔آناً فاناً انہیں نہ صرف حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا،بلکہ ان کی اولادوں کو جلا وطنی کے عذابوں سے بھی گزرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے نا شکرے لوگوں سے اپنی نعمت(خلافت) واپس لے لی اور عزت کی تمام خوبیوں سے انہیں محروم کر دیا۔”
”امیر المؤمنین، عبداللہ بن مروان(اموی سلطنت کا نورِ چشم جسے نعمتوںکی بہتات نے باغی بنا دیا تھا) اپنے بچے کچھے یاروں کے ساتھ ملک سے فرار ہو کر”نوبہ”(ایک عیسائی ریاست) میں داخل ہوا۔عیسائی ریاست کے بادشاہ نے اپنے وزراء سے ان داخل ہونے والے مہمانوں کی بابت دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟بادشاہ کو جب ان کی پوری حقیقت سے آگاہ کیا گیا تو بادشاہ نے خود ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
بادشاہ سوار ہو کر عبداللہ کے پاس پہنچا اور اس سے ان کی تکلیف معلوم کی،پھر بادشاہ نے نہ جانے کیا گفتگو کی جو مجھے یاد نہیں،لیکن بادشاہ نے انہیں فوراً اپنا ملک چھوڑنے کا کہا کہ اس کا ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
”امیر المؤمنین کی خواہش ہو تو ہم عبداللہ کو قید خانے سے بلا کر اس واقعے کی پوری حقیقت جان سکتے ہیں۔ منصور نے عبداللہ کو پیش کرنے کا حکم جاری کیا اور پھر عبداللہ سے دریافت کیا کہ ریاست”نوبہ” میں عیسائی بادشاہ کے ساتھ ان کا جو قصہ ہوا تھا وہ کیا تھا؟ ذرا سنائو!”
عبداللہ بن مروان گویا ہوا:
”امیر المؤمنین! میں اپنے بچے ہوئے ساز و سامان کے ساتھ ریاست”نوبہ” میں داخل ہوا۔ یہی سامان میری کل کائنات تھا اور زندگی میں پہلی بار اس طرح دیارِ غیر میں ذلت کے ساتھ تین دن گزارے۔ریاست کے بادشاہ کو ہمارے مکمل حالات سے آگاہ کیا گیا تو وہ خود ہمارے پاس آیا اور آ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ جس کپڑے پر میں بیٹھا ہوا تھا وہ اس کے نزدیک بھی نہیں آیا،بادشاہ ایک لمبا تڑنگا آدمی تھا،ناک اونچی اور چہرہ خوبصورت تھا۔
میں نے اس سے پوچھا:”تمہیں کس چیز نے بستر پر بیٹھنے سے روک دیا؟”
کہنے لگا:”میں بادشاہ ہوں اور ہر بادشاہ پر لازم ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے بلندی نصیب کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے آگے جھک جائے، یعنی تواضع اختیار کرے۔”
بادشاہ نے مجھ سے مزید گفتگو کی:”تم لوگ شراب کیوں پیتے ہو،حالانکہ تمہاری کتاب میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے؟”
عبداللہ:”یہ کام ہمارے غلام اور بے وقوف لوگ کرتے ہیں۔”
بادشاہ:”تم لوگ چوپایوں کے ذریعے اپنی کھیتیوں کو کیوں روندتے ہو،حالانکہ فساد برپا کرنا بھی تمہارے دین میں حرام قرار دیا گیا ہے؟”
عبداللہ:”یہ کام بھی ہمارے نادان لوگ کرتے ہیں۔”
بادشاہ:”تم لوگ ریشم کیوں پہنتے ہو اور سونا اور چاندی کیوں استعمال کرتے ہو،حالانکہ یہ بھی تمہارے مردوں پر حرام ہے؟”
عبداللہ:”جب ہم سے سلطنت چلی گئی تو ہمارے مددگار کم ہو گئے۔ پھر جب ہمیں عجمیوں پر فتح اور غلبہ ملا تو وہ لوگ ہمارے دین میں داخل ہو گئے۔ان لوگوں نے ہماری ناپسندیدگی کے باوجود ان چیزوں کو استعمال کیا۔”
بادشاہ کافی دیر تک سرجھکائے رہا،اپنے ہاتھوں کو الٹتا پلٹتا رہا اور زمین کریدتا رہا،پھر انتہائی جذبات میں آ کر اُس نے کہا:
”تم غلط بیانی سے کام لے رہے ہو اور حقیقت کے خلاف بتلا رہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم وہ قوم ہو جس نے حرام کو حلال کیا،جس سے تمہیں روکا گیا اُسی پر تم سوار ہوئے اور اپنے غلاموں پر تشدد کیا،جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تم لوگوں سے ناراض ہوا اور تم سے عزت کے تمام اسباب واپس لے کر تمہیں ذلت کے طوق پہنا دیے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ابھی تمہاری سزا ختم نہیں ہوئی،بلکہ انتقام کی آگ ابھی مزید سلگنے والی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ جب تم پر عذاب کی آگ برسے تو تم میرے ملک میں ہو اور پھر اس آگ کی لپیٹ میںآکر میرے ملک کی بے گناہ عوام بھی جھلس جائے،لہٰذا مہمانی صرف تین دن تک ہوتی ہے جو ہو چکی،اب تم رختِ سفر باندھو اور فی الفور یہاں سے کوچ کرو!”(راحت حاصل کیجئے